الادب المفرد - حدیث 216

كِتَابُ بَابُ مَنْ صُنِعَ إِلَيْهِ مَعْرُوفٌ فَلْيُكَافِئْهُ حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((مَنِ اسْتَعَاذَ بِاللَّهِ فَأَعِيذُوهُ، وَمَنْ سَأَلَ بِاللَّهِ فَأَعْطُوهُ، وَمَنْ أَتَى إِلَيْكُمْ مَعْرُوفًا فَكَافِئُوهُ، فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا فَادْعُوا لَهُ، حَتَّى يَعْلَمَ أَنْ قَدْ كَافَأْتُمُوهُ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 216

کتاب جس سے نیکی کی جائے وہ اس کا پورا پورا بدلہ دے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جو کوئی اللہ کے نام پر تم سے پناہ مانگے اس کو پناہ دو اور جو اللہ کے نام پر سوال کرے اسے دو اور جو تم پر کوئی احسان کرے تو اس کو بدلہ دو اور اگر تمہارے پاس بدلہ دینے کے لیے کچھ نہ ہو تو اس کے لیے اتنی دعا کرو کہ جان لیا جائے کہ تم نے اس کا بدلہ دے دیا ہے۔‘‘
تشریح : (۱)پناہ طلب کرنے کی دو صورتیں ہیں:کسی شخص کے شر سے بچنے کے لیے اسے کہا جائے کہ میں تجھے اللہ کا واسطہ دے کر پناہ مانگتا ہوں کہ مجھے کچھ نہ کہو۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی کمزور شخص دشمن سے بچتے ہوئے کسی مدد کا طلب گار ہو اور درخواست کرے کہ اللہ کے لیے مجھے پناہ دے دو تو ایسے شخص کو پناہ دینا مسلمان پر فرض ہے الا یہ کہ پناہ طلب کرنے والا عادی مجرم یا قاتل ہو یا اس نے کسی کا حق مارا ہو جسے وہ دبانا چاہتا ہو تو ایسے شخص کو پناہ دینا جائز نہیں۔ (۲) اللہ کے نام کا واسطہ دے کر مانگنے والے کو اللہ تعالیٰ کے نام کی لاج رکھتے ہوئے کچھ نہ کچھ دینا چاہیے اور اگر نہ ہو تو احسن انداز سے معذرت کرنی چاہیے۔ سائل کو جھڑکنا، خصوصاً جب وہ اللہ کے نام پر مانگ رہا ہو، جائز نہیں۔ تاہم جو غیر اللہ کے نام پر مانگے اسے نہیں دینا چاہیے۔ اگر کوئی شخص پیشہ ور بھکاری ہو اور جس سے سوال کیا جارہا ہو اسے معلوم ہو کہ یہ ضرورت مند نہیں ہے تو ایسے شخص کو نہ دینا جائز ہے تاکہ اس پیشے کی حوصلہ شکنی ہو، نیز اسے بھی مناسب انداز میں سمجھانا چاہیے۔ (۳) ’’حتی یُعلم‘‘ کی جگہ ابو داود کے الفاظ ہیں:’’حتی تروا‘‘ حتیٰ کہ تمہیں سمجھ آ جائے کہ تم نے اس کا بدلہ چکا دیا ہے۔ جو شخص کسی پر احسان کرے تو جس کے ساتھ نیکی کی گئی ہو اسے احسان مند ہونا چاہیے اور اپنے محسن کو اچھا بدلہ دینا چاہیے۔ لیکن اگر کوئی شخص مالی یا کسی دوسرے احسان کا اس صورت میں بدلہ نہیں دے سکتا تو اسے دعا ضرور کرنی چاہیے اور اتنی زیادہ دعا کرنی چاہیے کہ آدمی کو یقین ہو جائے کہ اس نے احسان کا بدلہ چکا دیا ہے۔ احسان فراموشی مومن کا شیوہ ہرگز نہیں۔ دنیاوی محسن کی طرح مذہبی محسن کو بھی بدلہ دینا ضروری ہے۔ جو شخص انسان کی ہدایت کا سبب بنا ہو یا وہ اس کی دینی ضرورتیں پوری کرتا ہو، مدرس، خطیب یا مصنف کی صورت میں، اس کے لیے دعا کرنا بھی ضروری ہے ورنہ احسان فراموشی ہوگی۔ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنا بھی مومن پر فرض ہے۔
تخریج : صحیح:أخرجه أبي داود، کتاب الزکاۃ، باب عطیة من سال باللّٰه عزوجل:۱۶۷۲۔ والنسائي:۲۵۶۷۔ الصحیحة:۲۵۴۔ (۱)پناہ طلب کرنے کی دو صورتیں ہیں:کسی شخص کے شر سے بچنے کے لیے اسے کہا جائے کہ میں تجھے اللہ کا واسطہ دے کر پناہ مانگتا ہوں کہ مجھے کچھ نہ کہو۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی کمزور شخص دشمن سے بچتے ہوئے کسی مدد کا طلب گار ہو اور درخواست کرے کہ اللہ کے لیے مجھے پناہ دے دو تو ایسے شخص کو پناہ دینا مسلمان پر فرض ہے الا یہ کہ پناہ طلب کرنے والا عادی مجرم یا قاتل ہو یا اس نے کسی کا حق مارا ہو جسے وہ دبانا چاہتا ہو تو ایسے شخص کو پناہ دینا جائز نہیں۔ (۲) اللہ کے نام کا واسطہ دے کر مانگنے والے کو اللہ تعالیٰ کے نام کی لاج رکھتے ہوئے کچھ نہ کچھ دینا چاہیے اور اگر نہ ہو تو احسن انداز سے معذرت کرنی چاہیے۔ سائل کو جھڑکنا، خصوصاً جب وہ اللہ کے نام پر مانگ رہا ہو، جائز نہیں۔ تاہم جو غیر اللہ کے نام پر مانگے اسے نہیں دینا چاہیے۔ اگر کوئی شخص پیشہ ور بھکاری ہو اور جس سے سوال کیا جارہا ہو اسے معلوم ہو کہ یہ ضرورت مند نہیں ہے تو ایسے شخص کو نہ دینا جائز ہے تاکہ اس پیشے کی حوصلہ شکنی ہو، نیز اسے بھی مناسب انداز میں سمجھانا چاہیے۔ (۳) ’’حتی یُعلم‘‘ کی جگہ ابو داود کے الفاظ ہیں:’’حتی تروا‘‘ حتیٰ کہ تمہیں سمجھ آ جائے کہ تم نے اس کا بدلہ چکا دیا ہے۔ جو شخص کسی پر احسان کرے تو جس کے ساتھ نیکی کی گئی ہو اسے احسان مند ہونا چاہیے اور اپنے محسن کو اچھا بدلہ دینا چاہیے۔ لیکن اگر کوئی شخص مالی یا کسی دوسرے احسان کا اس صورت میں بدلہ نہیں دے سکتا تو اسے دعا ضرور کرنی چاہیے اور اتنی زیادہ دعا کرنی چاہیے کہ آدمی کو یقین ہو جائے کہ اس نے احسان کا بدلہ چکا دیا ہے۔ احسان فراموشی مومن کا شیوہ ہرگز نہیں۔ دنیاوی محسن کی طرح مذہبی محسن کو بھی بدلہ دینا ضروری ہے۔ جو شخص انسان کی ہدایت کا سبب بنا ہو یا وہ اس کی دینی ضرورتیں پوری کرتا ہو، مدرس، خطیب یا مصنف کی صورت میں، اس کے لیے دعا کرنا بھی ضروری ہے ورنہ احسان فراموشی ہوگی۔ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنا بھی مومن پر فرض ہے۔