الادب المفرد - حدیث 213

كِتَابُ بَابُ الرَّجُلِ رَاعٍ فِي أَهْلِهِ حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ قَالَ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي سُلَيْمَانَ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ قَالَ: أَتَيْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ شَبَبَةٌ مُتَقَارِبُونَ، فَأَقَمْنَا عِنْدَهُ عِشْرِينَ لَيْلَةً، فَظَنَّ أَنَّا اشْتَهَيْنَا أَهْلِينَا، فَسَأَلْنَا عَنْ مَنْ تَرَكْنَا فِي أَهْلِينَا؟ فَأَخْبَرْنَاهُ - وَكَانَ رَفِيقًا رَحِيمًا - فَقَالَ: ((ارْجِعُوا إِلَى أَهْلِيكُمْ فَعَلِّمُوهُمْ وَمُرُوهُمْ، وَصَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي، فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاةُ، فَلْيُؤَذِّنْ لَكُمْ أَحَدُكُمْ، وَلْيَؤُمَّكُمْ أَكْبَرُكُمْ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 213

کتاب آدمی اپنے اہل خانہ کا ذمہ دار ہے حضرت ابو سلیمان مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے جبکہ ہم، ہم عمر نوجوان تھے، چنانچہ ہم بیس راتیں آپ کے ہاں ٹھہرے تو آپ نے محسوس کیا کہ ہم گھر والوں کے لیے اداس ہوگئے ہیں تو آپ نے ہم سے اہل و عیال کے متعلق پوچھا کہ کس کا کون ہے؟ ہم نے آپ کو بتایا۔ اور آپ بڑے نرم مزاج اور مہربان تھے۔ آپ نے فرمایا:اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ جاؤ اور انہیں تعلیم دو اور (اسلامی احکام پر عمل کا)حکم دو، اور نماز اس طرح پڑھو جس طرح مجھے پڑھتے دیکھا ہے۔ جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں سے کوئی ایک تمہارے لیے اذان دے اور جو تم میں سے بڑا ہے وہ امامت کروائے۔‘‘
تشریح : (۱)یہ حدیث نماز کے حوالے سے اصل کا درجہ رکھتی ہے، تاہم امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سے اہل خانہ سے متعلق آدمی کی ذمہ داری کا استنباط کیا ہے۔ وہ اس طرح کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مالک بن حویرث اور ان کے ساتھیوں کو حکم دیا کہ وہ گھر جاکر اسلام کی یہ تعلیم اپنے گھر والوں کو بھی سکھائیں۔ کیونکہ انہیں تعلیم دینا ان کی ذمہ داری ہے اور اہل میں انسان کی بیوی اور بچے بھی آجاتے ہیں۔ جس سے متعلق ان سے باز پرس ہوگی۔ (۲) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حاکم وقت کو اپنی رعایا اور استاد کو اپنے شاگردوں کے جذبات و احساسات اور ضرورتوں کا خیال رکھنا چاہیے جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھا۔ (۳) مسافر کے لیے اذان و اقامت اور جماعت مشروع ہے، نیز اذان کے لیے کسی بھی فرد کو معین کیا جاسکتا ہے۔ اس میں علم و فضل والا ہونا شرط نہیں، تاہم دوسری احادیث سے اس امر کی ترغیب ملتی ہے کہ مؤذن اسے مقرر کرنا چاہیے جس کی آواز خوبصورت اور بلند ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((وَلْیُنَادِ بِلَالٌ، فَاِنَّهُ أنْدَی صوتًا مِنْكَ)) ’’اور چاہیے کہ بلال اذان دے کیونکہ اس کی آواز تجھ سے بلند اور خوبصورت ہے۔‘‘ (صحیح سنن أبي داؤد، حدیث:۴۶۹) امامت کے لیے علم و فضل کو دیکھنا چاہیے اور جس شخص کو زیادہ قرآن یاد ہو اور وہ اس کا عالم بھی ہو اسے امامت کروانی چاہیے۔ اور اگر علم و فضل میں سب برابر ہوں تو جو عمر میں بڑا ہو اسے امامت کے فرائض سر انجام دینے چاہئیں۔
تخریج : صحیح:أخرجه البخاري، کتاب الأدب، باب رحمة الناس والبهائم:۶۰۰۸۔ ومسلم:۱۵۶۷۔ والنسائي:۶۳۵۔ الارواء:۲۱۳۔ (۱)یہ حدیث نماز کے حوالے سے اصل کا درجہ رکھتی ہے، تاہم امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سے اہل خانہ سے متعلق آدمی کی ذمہ داری کا استنباط کیا ہے۔ وہ اس طرح کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مالک بن حویرث اور ان کے ساتھیوں کو حکم دیا کہ وہ گھر جاکر اسلام کی یہ تعلیم اپنے گھر والوں کو بھی سکھائیں۔ کیونکہ انہیں تعلیم دینا ان کی ذمہ داری ہے اور اہل میں انسان کی بیوی اور بچے بھی آجاتے ہیں۔ جس سے متعلق ان سے باز پرس ہوگی۔ (۲) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حاکم وقت کو اپنی رعایا اور استاد کو اپنے شاگردوں کے جذبات و احساسات اور ضرورتوں کا خیال رکھنا چاہیے جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھا۔ (۳) مسافر کے لیے اذان و اقامت اور جماعت مشروع ہے، نیز اذان کے لیے کسی بھی فرد کو معین کیا جاسکتا ہے۔ اس میں علم و فضل والا ہونا شرط نہیں، تاہم دوسری احادیث سے اس امر کی ترغیب ملتی ہے کہ مؤذن اسے مقرر کرنا چاہیے جس کی آواز خوبصورت اور بلند ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((وَلْیُنَادِ بِلَالٌ، فَاِنَّهُ أنْدَی صوتًا مِنْكَ)) ’’اور چاہیے کہ بلال اذان دے کیونکہ اس کی آواز تجھ سے بلند اور خوبصورت ہے۔‘‘ (صحیح سنن أبي داؤد، حدیث:۴۶۹) امامت کے لیے علم و فضل کو دیکھنا چاہیے اور جس شخص کو زیادہ قرآن یاد ہو اور وہ اس کا عالم بھی ہو اسے امامت کروانی چاہیے۔ اور اگر علم و فضل میں سب برابر ہوں تو جو عمر میں بڑا ہو اسے امامت کے فرائض سر انجام دینے چاہئیں۔