الادب المفرد - حدیث 211

كِتَابُ بَابُ هَلْ يَقُولُ: سَيِّدِي؟ حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْفَضْلِ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مَسْلَمَةَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ مُطَرِّفٍ قَالَ: قَالَ أَبِي: انْطَلَقْتُ فِي وَفْدِ بَنِي عَامِرٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: أَنْتَ سَيِّدُنَا، قَالَ: ((السَّيِّدُ اللَّهُ)) ، قَالُوا: وَأَفْضَلُنَا فَضْلًا، وَأَعْظَمُنَا طَوْلًا، قَالَ: فَقَالَ: ((قُولُوا بِقَوْلِكُمْ، وَلَا يَسْتَجْرِيَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 211

کتاب کیا کسی کو سیدی کہا جاسکتا ہے؟ حضرت مطرف اپنے والد (عبداللہ بن شخیر)سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا:میں بنو عامر کے ایک وفد کے ہمراہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا:آپ ہمارے سید ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’سید تو اللہ ہے۔‘‘ انہوں نے کہا:آپ ہم سے زیادہ فضیلت اور عزت و شرف والے ہیں۔ راوی کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:’’اپنی بات کرو اور شیطان تمہیں اپنا وکیل نہ بنائے۔‘‘
تشریح : (۱)لفظ سید کا استعمال ذات باری کے علاوہ کسی کے لیے استعمال کرنا جائز ہے یا ناجائز، اس بارے میں اختلاف ہے کیونکہ دونوں طرح کی روایات وارد ہیں۔ راجح قول یہ معلوم ہوتا ہے اس لفظ کے استعمال سے بچا جائے، تاہم بعض صورتوں میں اس کا استعمال جائز ہے اور اس میں کوئی کراہت بھی نہیں جبکہ اس کی اضافت ہو، مثلاً:غلام اپنے آقا کو سیدی کہے یا قبیلے کے سردار کو کہا جائے کہ وہ سید القوم ہے۔ البتہ اس کا مطلق استعمال صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہونا چاہیے کیونکہ حقیقی سیادت اسی کی ہے۔ (۲) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے لیے یہ لفظ پسند نہیں کیا جبکہ بعض روایات میں آپ نے خود اپنے آپ کو سید کہا ہے۔ اس میں تطبیق کی صورت یوں ہے کہ آپ نے اس حقیقت کے بیان کے لیے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے تمام انسانیت پر فضیلت دی ہے اس لفظ کو استعمال کیا۔ اس سے تعلی یا فخر و غرور مقصود نہیں تھا جیسا کہ آپ نے خود اس کی وضاحت فرما دی۔ اور اس حدیث میں جو آپ نے منع کیا اس کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ٭ وہ لوگ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور اس بات کا خدشہ تھا کہ وہ تعریف میں مبالغہ آرائی نہ کریں جیسا کہ یہود و نصاریٰ نے انبیاء علیہم السلام کی شان میں غلو کیا اور گمراہ ہوئے اس لیے آپ نے سد ذریعہ کے طور پر منع کیا۔ ٭ اہل عرب اپنے دنیا دار سرداروں کو اس انداز سے پکارتے تھے۔ آپ نے اس کا رد کیا کہ میں ان سرداروں کی طرح نہیں کیونکہ میرا مقام و مرتبہ نبوت و رسالت کی وجہ سے ہے۔ اس لیے آپ نے فرمایا کہ جس مقصد کے لیے تم آئے ہو، وہ بات کرو اور میرے بارے میں تکلف سے کام نہ لو بلکہ جن خطابات کے ساتھ مجھے اللہ تعالیٰ نے سرفراز فرمایا ہے، انھی سے پکارو، یعنی نبی اور رسول کہہ کر۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں بہکا دے اور تم غلو کرنے لگ جاؤ۔
تخریج : صحیح:أخرجه أبي داود، کتاب الأدب، باب في کراهیة التمادح:۴۸۰۶۔ وأحمد:۱۶۳۰۷۔ والنسائي في الکبریٰ:۱۰۰۴۔ (۱)لفظ سید کا استعمال ذات باری کے علاوہ کسی کے لیے استعمال کرنا جائز ہے یا ناجائز، اس بارے میں اختلاف ہے کیونکہ دونوں طرح کی روایات وارد ہیں۔ راجح قول یہ معلوم ہوتا ہے اس لفظ کے استعمال سے بچا جائے، تاہم بعض صورتوں میں اس کا استعمال جائز ہے اور اس میں کوئی کراہت بھی نہیں جبکہ اس کی اضافت ہو، مثلاً:غلام اپنے آقا کو سیدی کہے یا قبیلے کے سردار کو کہا جائے کہ وہ سید القوم ہے۔ البتہ اس کا مطلق استعمال صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہونا چاہیے کیونکہ حقیقی سیادت اسی کی ہے۔ (۲) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے لیے یہ لفظ پسند نہیں کیا جبکہ بعض روایات میں آپ نے خود اپنے آپ کو سید کہا ہے۔ اس میں تطبیق کی صورت یوں ہے کہ آپ نے اس حقیقت کے بیان کے لیے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے تمام انسانیت پر فضیلت دی ہے اس لفظ کو استعمال کیا۔ اس سے تعلی یا فخر و غرور مقصود نہیں تھا جیسا کہ آپ نے خود اس کی وضاحت فرما دی۔ اور اس حدیث میں جو آپ نے منع کیا اس کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ٭ وہ لوگ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور اس بات کا خدشہ تھا کہ وہ تعریف میں مبالغہ آرائی نہ کریں جیسا کہ یہود و نصاریٰ نے انبیاء علیہم السلام کی شان میں غلو کیا اور گمراہ ہوئے اس لیے آپ نے سد ذریعہ کے طور پر منع کیا۔ ٭ اہل عرب اپنے دنیا دار سرداروں کو اس انداز سے پکارتے تھے۔ آپ نے اس کا رد کیا کہ میں ان سرداروں کی طرح نہیں کیونکہ میرا مقام و مرتبہ نبوت و رسالت کی وجہ سے ہے۔ اس لیے آپ نے فرمایا کہ جس مقصد کے لیے تم آئے ہو، وہ بات کرو اور میرے بارے میں تکلف سے کام نہ لو بلکہ جن خطابات کے ساتھ مجھے اللہ تعالیٰ نے سرفراز فرمایا ہے، انھی سے پکارو، یعنی نبی اور رسول کہہ کر۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں بہکا دے اور تم غلو کرنے لگ جاؤ۔