الادب المفرد - حدیث 21

كِتَابُ بَابُ مَنْ أَدْرَكَ وَالِدَيْهِ فَلَمْ يَدْخُلِ الْجَنَّةَ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سُهَيْلٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((رَغِمَ أَنْفُهُ، رَغِمَ أَنْفُهُ، رَغِمَ أَنْفُهُ)) ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَنْ؟ قَالَ: ((مَنْ أَدْرَكَ وَالِدَيْهِ عِنْدَ الْكِبْرِ، أَوْ أَحَدَهُمَا، فَدَخَلَ النَّارَ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 21

کتاب جس نے اپنے والدین کو پایا، پھر (ان کی خدمت کرکے)جنت میں داخل نہ ہوسکا سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے کہ آپ نے فرمایا: ’’وہ آدمی ذلیل ہو، خوار ہو، رسوا ہو۔‘‘ صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول کون؟ آپ نے فرمایا: جس نے اپنے والدین یا ان میں سے کسی ایک کو بڑھاپے کی حالت میںپایا اور پھر (ان کی خدمت نہ کرکے)آگ میں چلا گیا۔‘‘
تشریح : (۱)والدین انسان کے دنیا میں آنے کا سبب بنتے ہیں اور مشاہدے سے یہ بات ثابت ہے کہ جب تک ان میں ہمت و سکت ہوتی ہے وہ اولاد کی خاطر محنت کرتے ہیں حتی کہ اپنی قوت سے بڑھ کر اولاد کی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں۔ پچاس ساٹھ سال اولاد کی خاطر اپنی تمام تر صلاحیتوں کو ختم کرنے والے والدین جب سہارے کے محتاج ہوں، اور وہ بھی نہ جانے چند سال یا چند ماہ ہوں، اور اولاد ان کو بے آسرا و بے سہارا چھوڑ دے تو یہ اولاد کی بہت ہی کم بختی کی علامت ہے۔ (۲) والدین کی خدمت نہ کرنے والے شخص کے لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بد دعا کہ ’’وہ ذلیل و رسوا ہو‘‘ اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ یہ نہایت سنگین جرم ہے، ورنہ رحمۃ للعالمین اس کے لیے بدعا نہ کرتے، کہ انسان بڑھاپے میں والدین کو بے یاروومدگار چھوڑ دے۔ (۳) آپ کا اس بات کی طرف توجہ دلانا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اکثر وبیشتر اولاد اس میں کوتاہی کرتی ہے جس کا نتیجہ ذلت و رسوائی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ (۴) خدمت والدین کے کئی طریقے ہوسکتے ہیں: مثلاً والدین کو مال کی ضرورت ہے تو انہیں مال پیش کیا جائے۔ جسمانی خدمت کی ضرورت ہے تو وہ بھی کی جائے۔ دور حاضر میں بڑی گھمبیر صورت حال ہے کہ بچے پیٹ کی خاطر یا کسی دوسری غرض سے گھروں سے دور چلے جاتے ہیں اور بسا اوقات والدین ساتھ رہنا اور اپنے آبائی علاقے کو چھوڑنا پسند نہیں کرتے، بالخصوص علمائے کرام جو گھروں سے دور خدمت دین کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں انہیں یہ مسئلہ در پیش رہتا ہے؟ ایسے میں اگر وہ اکیلی اولاد ہے تو ہر ممکن والدین کو ساتھ رکھنا یا ان کے پاس چلے جانا ضروری ہے کیونکہ بوڑھے والدین کی خدمت کرنا دوسرے لوگوں کی خدمت کرنے سے زیادہ مثبت نتائج برآمد کرتا ہے۔ اور ان کی صحت پر بھی اچھا اثر ہوتا ہے۔ اور اگر ایک سے زیادہ اولادیں ہوں اور سب کا ایک ساتھ رہنا ممکن نہ ہو تو پھر والدین کی جس طرح خدمت ممکن ہو مالی یا جسمانی کرنی چاہیے۔ یورپ میں بوڑھوں کی خدمت کے لیے الگ سے لوگ اور جگہ مخصوص کر دینا ان کے بڑھاپے کے دکھوں کا مداوا نہیں ہے بلکہ انہیں خدمت کے ساتھ ساتھ اولاد کے خلوص اور محبت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے اولاد کو چاہیے کہ خود والدین کی خدمت کریں۔ (۵) یہ انسانی حقوق کے تحفظ کی ایک ایسی روشن مثال ہے جس کا یورپ میں ملنا ممکن نہیں ہے بلکہ وہاں تو بوڑھے گھروں میں تنہا سسک سسک کر مر جاتے ہیں اور کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہوتا پچھلے دنوں ایک کالم نگار نے یورپ کی ایک بڑھیا کے بارے میں تفصیل سے لکھا تھا کہ جسے اس کے مرنے کے آٹھ روز بعد بو پیدا ہونے کی وجہ سے حکومت کے کارندوں نے دفن کیا جب کہ اس کی اولاد اپنی الگ رہائشوں میں سکونت پذیر تھی۔ اعاذنا اللّٰہ منہ! (۶) مسلمانوں کو چاہیے کہ اسلام کی قدر کریں اور اپنی اولاد کو دینی تعلیم سے آراستہ کریں تاکہ کل وہ ان کے بڑھاپے کا سہارا بنیں۔ محض مغربی تعلیم سے اولاد کو روشناس کرانا اور اسلام سے دور رکھنا اولاد کے ساتھ اور خود اپنے ساتھ بھی ظلم ہے جس کا صحیح علم روز قیامت کو ہوگا۔ (۷) جنت کا حصول اور جہنم سے آزادی مومن کی سب سے بڑی مراد ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت ماں کے قدموں میں بتائی ہے اور والد کو جنت کا درمیانی دروازہ قرار دیا ہے اس لیے ان کو خوش کرکے اور ان کی خدمت کرکے جنت کا حصول آسان بنایا جاسکتا ہے۔
تخریج : صحیح: أخرجه مسلم، البر والصلة: ۲۵۵۱۔ (۱)والدین انسان کے دنیا میں آنے کا سبب بنتے ہیں اور مشاہدے سے یہ بات ثابت ہے کہ جب تک ان میں ہمت و سکت ہوتی ہے وہ اولاد کی خاطر محنت کرتے ہیں حتی کہ اپنی قوت سے بڑھ کر اولاد کی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں۔ پچاس ساٹھ سال اولاد کی خاطر اپنی تمام تر صلاحیتوں کو ختم کرنے والے والدین جب سہارے کے محتاج ہوں، اور وہ بھی نہ جانے چند سال یا چند ماہ ہوں، اور اولاد ان کو بے آسرا و بے سہارا چھوڑ دے تو یہ اولاد کی بہت ہی کم بختی کی علامت ہے۔ (۲) والدین کی خدمت نہ کرنے والے شخص کے لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بد دعا کہ ’’وہ ذلیل و رسوا ہو‘‘ اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ یہ نہایت سنگین جرم ہے، ورنہ رحمۃ للعالمین اس کے لیے بدعا نہ کرتے، کہ انسان بڑھاپے میں والدین کو بے یاروومدگار چھوڑ دے۔ (۳) آپ کا اس بات کی طرف توجہ دلانا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اکثر وبیشتر اولاد اس میں کوتاہی کرتی ہے جس کا نتیجہ ذلت و رسوائی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ (۴) خدمت والدین کے کئی طریقے ہوسکتے ہیں: مثلاً والدین کو مال کی ضرورت ہے تو انہیں مال پیش کیا جائے۔ جسمانی خدمت کی ضرورت ہے تو وہ بھی کی جائے۔ دور حاضر میں بڑی گھمبیر صورت حال ہے کہ بچے پیٹ کی خاطر یا کسی دوسری غرض سے گھروں سے دور چلے جاتے ہیں اور بسا اوقات والدین ساتھ رہنا اور اپنے آبائی علاقے کو چھوڑنا پسند نہیں کرتے، بالخصوص علمائے کرام جو گھروں سے دور خدمت دین کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں انہیں یہ مسئلہ در پیش رہتا ہے؟ ایسے میں اگر وہ اکیلی اولاد ہے تو ہر ممکن والدین کو ساتھ رکھنا یا ان کے پاس چلے جانا ضروری ہے کیونکہ بوڑھے والدین کی خدمت کرنا دوسرے لوگوں کی خدمت کرنے سے زیادہ مثبت نتائج برآمد کرتا ہے۔ اور ان کی صحت پر بھی اچھا اثر ہوتا ہے۔ اور اگر ایک سے زیادہ اولادیں ہوں اور سب کا ایک ساتھ رہنا ممکن نہ ہو تو پھر والدین کی جس طرح خدمت ممکن ہو مالی یا جسمانی کرنی چاہیے۔ یورپ میں بوڑھوں کی خدمت کے لیے الگ سے لوگ اور جگہ مخصوص کر دینا ان کے بڑھاپے کے دکھوں کا مداوا نہیں ہے بلکہ انہیں خدمت کے ساتھ ساتھ اولاد کے خلوص اور محبت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے اولاد کو چاہیے کہ خود والدین کی خدمت کریں۔ (۵) یہ انسانی حقوق کے تحفظ کی ایک ایسی روشن مثال ہے جس کا یورپ میں ملنا ممکن نہیں ہے بلکہ وہاں تو بوڑھے گھروں میں تنہا سسک سسک کر مر جاتے ہیں اور کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہوتا پچھلے دنوں ایک کالم نگار نے یورپ کی ایک بڑھیا کے بارے میں تفصیل سے لکھا تھا کہ جسے اس کے مرنے کے آٹھ روز بعد بو پیدا ہونے کی وجہ سے حکومت کے کارندوں نے دفن کیا جب کہ اس کی اولاد اپنی الگ رہائشوں میں سکونت پذیر تھی۔ اعاذنا اللّٰہ منہ! (۶) مسلمانوں کو چاہیے کہ اسلام کی قدر کریں اور اپنی اولاد کو دینی تعلیم سے آراستہ کریں تاکہ کل وہ ان کے بڑھاپے کا سہارا بنیں۔ محض مغربی تعلیم سے اولاد کو روشناس کرانا اور اسلام سے دور رکھنا اولاد کے ساتھ اور خود اپنے ساتھ بھی ظلم ہے جس کا صحیح علم روز قیامت کو ہوگا۔ (۷) جنت کا حصول اور جہنم سے آزادی مومن کی سب سے بڑی مراد ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت ماں کے قدموں میں بتائی ہے اور والد کو جنت کا درمیانی دروازہ قرار دیا ہے اس لیے ان کو خوش کرکے اور ان کی خدمت کرکے جنت کا حصول آسان بنایا جاسکتا ہے۔