الادب المفرد - حدیث 209

كِتَابُ بَابُ لَا يَقُولُ: عَبْدِي حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنِ الْعَلَاءِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا يَقُلْ أَحَدُكُمْ: عَبْدِي، أَمَتِي، كُلُّكُمْ عَبِيدُ اللَّهِ، وَكُلُّ نِسَائِكُمْ إِمَاءُ اللَّهِ، وَلْيَقُلْ: غُلَامِي، جَارِيَتِي، وَفَتَايَ، وَفَتَاتِي "

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 209

کتاب غلام کو ’’عبدی‘‘ نہیں کہنا چاہیے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تم میں سے کوئی (اپنے غلام کو)عبدی اور (لونڈی کو)امتی نہ کہے کیونکہ تم سب اللہ کے بندے ہو اور تمہاری تمام عورتیں اللہ کی باندیاں ہیں۔ بلکہ اس طرح کہنا چاہیے میرا غلام، میری لونڈی اور میرا فتا (نوجوان)اور میری فتاۃ۔‘‘
تشریح : عربی زبان میں غلام کے لیے کئی لفظ استعمال ہوتے ہیں جن میں سے عبد بھی ہے۔ لیکن کسی کو اپنا عبد (بندہ)کہنے میں تکبر اور بڑے پن کا احساس بہت نمایاں ہے اس لیے شریعت نے ایسے لفظ کے استعمال سے اجتناب کا حکم دیا ہے کیونکہ در حقیقت تو سب اللہ کے بندے ہیں۔ اور جہاں تک دیگر الفاظ ہیں تو وہ بسا اوقات آزاد کے لیے بھی بولے جاتے ہیں۔ فتا اور فتاۃ کا ترجمہ خادم اور خادمہ کیا جاسکتا ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ کسی کو ایسے القاب سے نہیں پکارنا چاہیے جس سے تکبر اور بڑائی کا احساس ہو کیونکہ یہ صرف اللہ تعالیٰ کے شایان شان ہے۔
تخریج : صحیح:أخرجه البخاري، کتاب العتق باب کراهیة التطاول علی الرقیق:۲۵۵۲۔ نحوہ، ومسلم:۲۲۴۹۔ الصحیحة:۸۰۳۔ عربی زبان میں غلام کے لیے کئی لفظ استعمال ہوتے ہیں جن میں سے عبد بھی ہے۔ لیکن کسی کو اپنا عبد (بندہ)کہنے میں تکبر اور بڑے پن کا احساس بہت نمایاں ہے اس لیے شریعت نے ایسے لفظ کے استعمال سے اجتناب کا حکم دیا ہے کیونکہ در حقیقت تو سب اللہ کے بندے ہیں۔ اور جہاں تک دیگر الفاظ ہیں تو وہ بسا اوقات آزاد کے لیے بھی بولے جاتے ہیں۔ فتا اور فتاۃ کا ترجمہ خادم اور خادمہ کیا جاسکتا ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ کسی کو ایسے القاب سے نہیں پکارنا چاہیے جس سے تکبر اور بڑائی کا احساس ہو کیونکہ یہ صرف اللہ تعالیٰ کے شایان شان ہے۔