الادب المفرد - حدیث 208

كِتَابُ بَابُ مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَكُونَ عَبْدًا حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ قَالَ: حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((الْعَبْدُ الْمُسْلِمُ إِذَا أَدَّى حَقَّ اللَّهِ وَحَقَّ سَيِّدِهِ، لَهُ أَجْرَانِ)) وَالَّذِي نَفْسُ أَبِي هُرَيْرَةَ بِيَدِهِ، لَوْلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَالْحَجُّ، وَبِرُّ أُمِّي، لَأَحْبَبْتُ أَنْ أَمُوتَ مَمْلُوكًا

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 208

کتاب جس نے غلام ہونے کی خواہش کی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’مسلمان غلام جب اپنے آقا کا حق ادا کرے تو اس کے لیے دوہرا اجر ہے۔‘‘ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں ابوہریرہ کی جان ہے! اگر اللہ کی راہ میں جہاد کرنا، حج کرنا اور والدہ کی خدمت کرنا نہ ہوتا تو میں غلامی کی حالت میں مرنا پسند کرتا۔
تشریح : (۱)مسلمان غلام کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حقوق تو ہر صورت ادا کرے ہی گا، اس کے ساتھ ساتھ اگر آقا کے حقوق بھی ادا کرے کہ اس کی فرمانبرداری کرے جیسا گزشتہ احادیث میں آیا ہے۔ (۲) غلامی میں بہر صورت انسان کے اوقات کا مالک کوئی دوسرا شخص ہوتا ہے اس لیے انسان اللہ کی راہ میں جہاد بھی نہیں کرسکتا کیونکہ اس کا آقا اس سے اپنی خدمت لے گا۔ اسی طرح غلامی میں حج بیت اللہ بھی ممکن نہیں اور جب خود کسی دوسرے کی ملکیت ہے اور چوبیس گھنٹے کا پابند ہے تو والدین کی خدمت بھی ممکن نہیں جو بہت بڑی نیکی ہے۔ (۳) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے صرف والدہ کا ذکر اپنی ذات کے حوالے سے کیا کیونکہ ان کی والدہ حیات تھیں اور وہ ان کے نہایت خدمت گزار تھے اور بہت زیادہ حسن سلوک سے پیش آتے تھے۔
تخریج : صحیح:أخرجه البخاري،کتاب العتق، باب العبد إذا أحسن عبادة ربه ونصح سیده:۲۵۴۸۔ ومسلم:۱۶۶۵۔ الصحیحة:۸۷۷۔ (۱)مسلمان غلام کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حقوق تو ہر صورت ادا کرے ہی گا، اس کے ساتھ ساتھ اگر آقا کے حقوق بھی ادا کرے کہ اس کی فرمانبرداری کرے جیسا گزشتہ احادیث میں آیا ہے۔ (۲) غلامی میں بہر صورت انسان کے اوقات کا مالک کوئی دوسرا شخص ہوتا ہے اس لیے انسان اللہ کی راہ میں جہاد بھی نہیں کرسکتا کیونکہ اس کا آقا اس سے اپنی خدمت لے گا۔ اسی طرح غلامی میں حج بیت اللہ بھی ممکن نہیں اور جب خود کسی دوسرے کی ملکیت ہے اور چوبیس گھنٹے کا پابند ہے تو والدین کی خدمت بھی ممکن نہیں جو بہت بڑی نیکی ہے۔ (۳) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے صرف والدہ کا ذکر اپنی ذات کے حوالے سے کیا کیونکہ ان کی والدہ حیات تھیں اور وہ ان کے نہایت خدمت گزار تھے اور بہت زیادہ حسن سلوک سے پیش آتے تھے۔