الادب المفرد - حدیث 198

كِتَابُ بَابُ إِذَا كَرِهَ أَنْ يَأْكُلَ مَعَ عَبْدِهِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَّامٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا مَخْلَدُ بْنُ زَيْدٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ سَمِعَ رَجُلًا يَسْأَلُ جَابِرًا عَنْ خَادِمِ الرَّجُلِ، إِذَا كَفَاهُ الْمَشَقَّةَ وَالْحَرَّ، أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَدْعُوهُ؟ قَالَ: ((نَعَمْ، فَإِنْ كَرِهَ أَحَدُكُمْ أَنْ يَطْعَمَ مَعَهُ فَلْيُطْعِمْهُ أُكْلَةً فِي يَدِهِ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 198

کتاب اگر کوئی غلام کے ساتھ کھانا ناپسند کرے تو؟ حضرت ابو الزبیر رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ جو خادم انسان کو مشقت اور گرمی سے بچائے (اور کھانا تیار کرے)تو کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ساتھ بٹھا کر کھلانے کا حکم دیا ہے؟ انہوں نے فرمایا:ہاں! لیکن اگر تم میں سے کوئی اسے ساتھ بٹھا کر کھلانا ناپسند کرے تو اس کے ہاتھ میں ہی ایک آدھ لقمہ تھما دے۔
تشریح : یہ حدیث حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کی مذکورہ بالا حدیث کی تفسیر ہے کہ غلام اور خادم کو ساتھ بٹھا کر کھلانا چاہیے۔ یعنی ابوذر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں جو اطلاق تھا اس کی وضاحت ہوگئی کہ خادم کو ساتھ بٹھا کر کھلانا ضروری نہیں، بہتر ضرور ہے اگر کوئی شخص ساتھ نہیں بٹھا سکتا تو اسے الگ سے دے دے تاکہ اس نے کھانا تیار کرکے مالک کو گرمی اور مشقت سے بچایا ہے تو وہ اس بات کا مستحق ہے کہ اس کھانے میں سے کھائے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خیرون القرون میں نوکر بھی ایمان دار تھے اور تیار کردہ کھانے میں خیانت نہیں کرتے تھے لیکن آج کل کے باورچی اور ملازمین تو پہلے اپنا کوٹہ پورا کرتے ہیں اور بعد ازاں مالکان کو دیتے ہیں۔ بہرحال ہر دو فریق کو اپنے اپنے فرائض کی طرف توجہ دینی چاہیے۔
تخریج : صحیح:أخرجه أحمد:۱۴۷۳۰۔ الصحیحة:۱۳۹۹، ۲۵۶۹۔ یہ حدیث حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کی مذکورہ بالا حدیث کی تفسیر ہے کہ غلام اور خادم کو ساتھ بٹھا کر کھلانا چاہیے۔ یعنی ابوذر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں جو اطلاق تھا اس کی وضاحت ہوگئی کہ خادم کو ساتھ بٹھا کر کھلانا ضروری نہیں، بہتر ضرور ہے اگر کوئی شخص ساتھ نہیں بٹھا سکتا تو اسے الگ سے دے دے تاکہ اس نے کھانا تیار کرکے مالک کو گرمی اور مشقت سے بچایا ہے تو وہ اس بات کا مستحق ہے کہ اس کھانے میں سے کھائے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خیرون القرون میں نوکر بھی ایمان دار تھے اور تیار کردہ کھانے میں خیانت نہیں کرتے تھے لیکن آج کل کے باورچی اور ملازمین تو پہلے اپنا کوٹہ پورا کرتے ہیں اور بعد ازاں مالکان کو دیتے ہیں۔ بہرحال ہر دو فریق کو اپنے اپنے فرائض کی طرف توجہ دینی چاہیے۔