الادب المفرد - حدیث 197

كِتَابُ بَابُ نَفَقَةُ الرَّجُلِ عَلَى عَبْدِهِ وَخَادِمِهِ صَدَقَةٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِصَدَقَةٍ، فَقَالَ رَجُلٌ: عِنْدِي دِينَارٌ، قَالَ: ((أَنْفِقْهُ عَلَى نَفْسِكَ)) ، قَالَ: عِنْدِي آخَرُ، قَالَ: ((أَنْفِقْهُ عَلَى زَوْجَتِكَ)) قَالَ: عِنْدِي آخَرُ، قَالَ: ((أَنْفِقْهُ عَلَى خَادِمِكَ، ثُمَّ أَنْتَ أَبْصَرُ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 197

کتاب کسی شخص کا اپنے غلام اور خادم پر خرچ کرنا صدقہ ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ کرنے کا حکم دیا تو ایک شخص نے عرض کیا:میرے پاس ایک دینار ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اسے اپنی ذات پر خرچ کرو۔‘‘ اس نے کہا:میرے پاس ایک اور بھی ہے۔ آپ نے فرمایا:’’اسے اپنی بیوی پر خرچ کرو۔‘‘ اس نے کہا:میرے پاس ایک اور بھی ہے۔ آپ نے فرمایا:وہ اپنے خادم پر خرچ کرو، پھر تم اپنے بارے میں بہتر جانتے ہو۔‘‘
تشریح : جب انسان کے پاس نپا تلا مال ہو تو اسے اپنی اور گھر والوں کی بنیادی ضروریات پر خرچ کرنا چاہیے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ فضول خرچی کرکے مال کو اڑاتا پھرے، اور اللہ کی مخلوق بنیادی ضرورتوں سے بھی تنگ ہو اور آدمی کہے کہ میرے تو اپنے اخراجات بھی پورے نہیں ہوتے، کیونکہ فضول خرچ تو شیاطین کے بھائی ہیں۔ عصر حاضر میں ہم نے اپنے اخراجات خواہ مخواہ بڑھالیے ہیں اور ساری آمدن لباس اور خوراک پر ہی خرچ کر دیتے ہیں اور جو بچ جائے وہ مٹی پر لگ جاتا ہے، یعنی مکانات پر خرچ ہو جاتا ہے اور قبر تک مکان مکمل نہیں ہو پاتا اور جب وہ بن جاتا ہے تو انسان خالی ہاتھ اگلے جہان کو سدھار جاتا ہے۔ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ جو شخص اللہ کی راہ میں مال نہیں دیتا اللہ تعالیٰ اس پر مٹی مسلط کر دیتا ہے تو وہ مٹی پر خرچ کرتا ہے۔ (الزهد لهناد السری)اور صحیح حدیث کے مطابق مٹی، یعنی عمارت پر خرچ کیے ہوئے کا کوئی اجر نہیں ملتا۔ (جامع الترمذي، صفة القیامة، حدیث:۲۴۸۲) جتنا روپیہ ہم دنیا کے عارضی گھر کی تعمیر پر خرچ کرتے ہیں اس کا کچھ حصہ آخرت کے دائمی گھر کے لیے بھی ضرور خرچ کرنا چاہیے کہ وہ بھی اچھا بن جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق دے۔
تخریج : حسن:أخرجه أبي داود، کتاب الزکاۃ، باب في صلة الرحم:۱۶۹۱۔ والنسائي:۲۵۳۵۔ أحمد:۲؍ ۲۵۱، ۴۷۱۔ وصححه ابن حبان، ح:۸۲۸۔ والحاکم علی شرط مسلم:۱؍ ۴۱۵۔ ووافقه الذهبي۔ جب انسان کے پاس نپا تلا مال ہو تو اسے اپنی اور گھر والوں کی بنیادی ضروریات پر خرچ کرنا چاہیے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ فضول خرچی کرکے مال کو اڑاتا پھرے، اور اللہ کی مخلوق بنیادی ضرورتوں سے بھی تنگ ہو اور آدمی کہے کہ میرے تو اپنے اخراجات بھی پورے نہیں ہوتے، کیونکہ فضول خرچ تو شیاطین کے بھائی ہیں۔ عصر حاضر میں ہم نے اپنے اخراجات خواہ مخواہ بڑھالیے ہیں اور ساری آمدن لباس اور خوراک پر ہی خرچ کر دیتے ہیں اور جو بچ جائے وہ مٹی پر لگ جاتا ہے، یعنی مکانات پر خرچ ہو جاتا ہے اور قبر تک مکان مکمل نہیں ہو پاتا اور جب وہ بن جاتا ہے تو انسان خالی ہاتھ اگلے جہان کو سدھار جاتا ہے۔ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ جو شخص اللہ کی راہ میں مال نہیں دیتا اللہ تعالیٰ اس پر مٹی مسلط کر دیتا ہے تو وہ مٹی پر خرچ کرتا ہے۔ (الزهد لهناد السری)اور صحیح حدیث کے مطابق مٹی، یعنی عمارت پر خرچ کیے ہوئے کا کوئی اجر نہیں ملتا۔ (جامع الترمذي، صفة القیامة، حدیث:۲۴۸۲) جتنا روپیہ ہم دنیا کے عارضی گھر کی تعمیر پر خرچ کرتے ہیں اس کا کچھ حصہ آخرت کے دائمی گھر کے لیے بھی ضرور خرچ کرنا چاہیے کہ وہ بھی اچھا بن جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق دے۔