كِتَابُ بَابُ نَفَقَةُ الرَّجُلِ عَلَى عَبْدِهِ وَخَادِمِهِ صَدَقَةٌ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى قَالَ: أَخْبَرَنَا بَقِيَّةُ قَالَ: أَخْبَرَنِي بَحِيرُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنِ الْمِقْدَامِ، سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ((مَا أَطْعَمْتَ نَفْسَكَ فَهُوَ صَدَقَةٌ، وَمَا أَطْعَمْتَ وَلَدَكَ وَزَوْجَتَكَ وَخَادِمَكَ فَهُوَ صَدَقَةٌ))
کتاب
کسی شخص کا اپنے غلام اور خادم پر خرچ کرنا صدقہ ہے
حضرت مقدام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:’’جو تم خود کھاؤ وہ تمہارے لیے صدقہ ہے اور جو تم اپنے بیوی بچوں اور خدمت گزاروں کو کھلاؤ وہ بھی صدقہ ہے۔‘‘
تشریح :
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ انسان پر فرض اور واجب ہے کہ وہ اپنے آپ کو زندہ رکھنے کے لیے خوراک کا بندوبست کرے۔ اگر کوئی شخص اس نیت کے ساتھ خود کھاتا ہے کہ یہ اللہ کا حکم ہے تو اسے اس پر بھی ثواب ہوگا۔ اسی طرح اہل و عیال پر اگر ثواب کی امید کے بغیر خرچ کرتا ہے تو فریضہ ادا ہو جائے گا، تاہم ثواب سے محروم رہے گا اور اگر اس ادائیگی فرض کے ساتھ ساتھ ثواب کی امید بھی رکھے تو اس کے لیے صدقہ کرنے کا ثواب ہوگا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ زکاۃ خود یا اپنے اہل و عیال کو کھلائی جاسکتی ہے۔
تخریج :
صحیح:أخرجه أحمد:۱۷۱۹۱۔ وابن ماجة:۲۱۳۸۔ الصحیحة:۴۵۲۔
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ انسان پر فرض اور واجب ہے کہ وہ اپنے آپ کو زندہ رکھنے کے لیے خوراک کا بندوبست کرے۔ اگر کوئی شخص اس نیت کے ساتھ خود کھاتا ہے کہ یہ اللہ کا حکم ہے تو اسے اس پر بھی ثواب ہوگا۔ اسی طرح اہل و عیال پر اگر ثواب کی امید کے بغیر خرچ کرتا ہے تو فریضہ ادا ہو جائے گا، تاہم ثواب سے محروم رہے گا اور اگر اس ادائیگی فرض کے ساتھ ساتھ ثواب کی امید بھی رکھے تو اس کے لیے صدقہ کرنے کا ثواب ہوگا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ زکاۃ خود یا اپنے اہل و عیال کو کھلائی جاسکتی ہے۔