كِتَابُ بَابُ سِبَابِ الْعَبِيدِ حَدَّثَنَا آدَمُ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ: حَدَّثَنَا وَاصِلٌ الْأَحْدَبُ قَالَ: سَمِعْتُ الْمَعْرُورَ بْنَ سُوَيْدٍ يَقُولُ: رَأَيْتُ أَبَا ذَرٍّ وَعَلَيْهِ حُلَّةٌ وَعَلَى غُلَامِهِ حُلَّةٌ، فَسَأَلْنَاهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: إِنِّي سَابَبْتُ رَجُلًا فَشَكَانِي إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((أَعَيَّرْتَهُ بِأُمِّهِ؟)) قُلْتُ: نَعَمْ، ثُمَّ قَالَ: ((إِنَّ إِخْوَانَكُمْ خَوَلُكُمْ، جَعَلَهُمُ اللَّهُ تَحْتَ أَيْدِيكُمْ، فَمَنْ كَانَ أَخُوهُ تَحْتَ يَدَيْهِ فَلْيُطْعِمْهُ مِمَّا يَأْكُلُ، وَلْيُلْبِسْهُ مِمَّا يَلْبَسُ، وَلَا تُكَلِّفُوهُمْ مَا يَغْلِبُهُمْ، فَإِنْ كَلَّفْتُمُوهُمْ مَا يَغْلِبُهُمْ فَأَعِينُوهُمْ))
کتاب
غلاموں کو برا بھلا کہنے کا بیان
حضرت سوید بن معرور کہتے ہیں کہ میں نے ابو ذر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ ان پر ایک جوڑا تھا اور ان کے غلام نے بھی ویسا ہی جوڑا پہن رکھا تھا۔ ہم نے ان سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا:میں نے ایک آدمی (غلام)کو برا بھلا کہا تو اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے میری شکایت کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:’’کیا تونے اس کو ماں کی عار دلائی ہے؟‘‘ میں نے کہا:ہاں! پھر فرمایا:تمہارے خدام تمہارے بھائی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارا ماتحت بنایا ہے، لہٰذا جس کا بھائی اس کے ماتحت ہو تو اسے چاہیے کہ اسے بھی اس میں سے کھلائے جو خود کھاتا ہے اور اپنے جیسا لباس پہنائے۔ اور ان کی طاقت سے بڑھ کر ان پر بوجھ نہ ڈالو۔ اگر کوئی بھاری کام ان کے ذمے لگاؤ تو ان کی مدد بھی کرو۔‘‘
تشریح :
`غلاموں اور خدام کے ساتھ بھی توہین آمیز رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ خصوصاً حسب و نسب کے حوالے سے طعن کرنا نہایت جہالت ہے کیونکہ سبھی انسان حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے جس غلام کو برا بھلا کہا وہ حضرت بلال بن رباح تھے اور جو گالی دی وہ ماں کی تھی۔ انہوں نے کہا:کالی ماں کے بیٹے (شعب الایمان)اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تیرے اندر ابھی جاہلیت باقی ہے؟‘‘ (صحیح البخاري، الایمان، حدیث:۳۰)
اس سے معلوم ہوا کہ غلاموں یا ملازمین کو ڈانٹ ڈپٹ کرنی ہو تو حتی الوسع ایسے الفاظ سے گریز کرنی چاہیے جس سے عزت نفس مجروح ہو۔
تخریج :
صحیح:أخرجه البخاري، کتاب الإیمان، باب المعاصي من أمر الجاهلیة:۳۰۔ ومسلم:۱۶۶۱۔ وأبي داود:۵۱۵۸۔ والترمذي:۱۹۴۵۔ وابن ماجة:۳۶۹۰۔ الارواء:۲۱۷۶۔
`غلاموں اور خدام کے ساتھ بھی توہین آمیز رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ خصوصاً حسب و نسب کے حوالے سے طعن کرنا نہایت جہالت ہے کیونکہ سبھی انسان حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے جس غلام کو برا بھلا کہا وہ حضرت بلال بن رباح تھے اور جو گالی دی وہ ماں کی تھی۔ انہوں نے کہا:کالی ماں کے بیٹے (شعب الایمان)اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تیرے اندر ابھی جاہلیت باقی ہے؟‘‘ (صحیح البخاري، الایمان، حدیث:۳۰)
اس سے معلوم ہوا کہ غلاموں یا ملازمین کو ڈانٹ ڈپٹ کرنی ہو تو حتی الوسع ایسے الفاظ سے گریز کرنی چاہیے جس سے عزت نفس مجروح ہو۔