الادب المفرد - حدیث 187

كِتَابُ بَابُ اكْسُوهُمْ مِمَّا تَلْبَسُونَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ قَالَ: حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ مُجَاهِدِ أَبِي حَزْرَةَ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الْوَلِيدِ بْنِ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ: خَرَجْتُ أَنَا وَأَبِي نَطْلُبُ الْعِلْمَ فِي هَذَا الْحَيِّ فِي الْأَنْصَارِ، قَبْلَ أَنْ يَهْلِكُوا، فَكَانَ أَوَّلَ مَنْ لَقِينَا أَبُو الْيَسَرِ صَاحِبُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ غُلَامٌ لَهُ، وَعَلَى أَبِي الْيَسَرِ بُرْدَةٌ وَمَعَافِرِيٌّ، وَعَلَى غُلَامِهِ بُرْدَةٌ وَمَعَافِرِيٌّ، فَقُلْتُ لَهُ: يَا عَمِّي، لَوْ أَخَذْتَ بُرْدَةَ غُلَامِكَ وَأَعْطَيْتَهُ مَعَافِرِيَّكَ، أَوْ أَخَذْتَ مَعَافِرِيَّهُ وَأَعْطَيْتَهُ بُرْدَتَكَ، كَانَتْ عَلَيْكَ حُلَّةٌ أَوْ عَلَيْهِ حُلَّةٌ، فَمَسَحَ رَأْسِي وَقَالَ: اللَّهُمَّ بَارِكْ فِيهِ، يَا ابْنَ أَخِي، بَصَرُ عَيْنَيَّ هَاتَيْنِ، وَسَمْعُ أُذُنَيَّ هَاتَيْنِ، وَوَعَاهُ قَلْبِي - وَأَشَارَ إِلَى نِيَاطِ قَلْبِهِ - النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ((أَطْعِمُوهُمْ مِمَّا تَأْكُلُونَ، وَاكْسُوهُمْ مِمَّا تَلْبَسُونَ)) وَكَانَ أَنْ أُعْطِيَهُ مِنْ مَتَاعِ الدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَيَّ مِنْ أَنْ يَأْخُذَ مِنْ حَسَنَاتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 187

کتاب غلاموں کو اپنے جیسا لباس پہنانے کا حکم حضرت عبادۃ بن ولید بن عبادہ سے روایت ہے کہ میں اور میرے والد گرامی انصار کے ایک قبیلے میں حصول علم کے لیے گئے تاکہ ان کے ختم ہونے سے پہلے پہلے علم سیکھ لیں۔ سب سے پہلے ہماری ملاقات جس شخص سے ہوئی وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ابو الیسر رضی اللہ عنہ تھے اور ان کے ساتھ ان کا غلام بھی تھا۔ ابو الیسر رضی اللہ عنہ ایک چادر اور معافری کپڑا پہنے ہوئے تھے اور ان کے غلام کا لباس بھی ایک چادر اور معافری کپڑا تھا۔ میں نے کہا:چچا جان! اگر آپ غلام سے دھاری دار چادر لے لیتے اور اسے معافری کپڑا دے دیتے یا اس سے معافری کپڑا لے لیتے اور اپنی چادر اسے دے دیتے تو دونوں پر ایک جیسا جوڑا ہو جاتا۔ انہوں نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا:اے اللہ اسے برکت دے۔ اے میرے بھتیجے! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی ان دونوں آنکھوں سے دیکھا، ان دونوں کانوں سے سنا اور میرے دل نے اسے یاد رکھا، اور دل کی طرف اشارہ کیا، آپ فرماتے تھے:’’انہیں بھی وہی کھلاؤ جو خود کھاتے ہو اور انہیں بھی اپنے جیسا لباس پہناؤ۔‘‘ اور میں اسے دنیا کے مال سے دوں یہ میرے لیے اس سے زیادہ آسان ہے کہ وہ روز قیامت میری نیکیوں سے لے۔
تشریح : مطلب یہ ہے کہ غلام اور خدام بھی انسان ہیں اور ان کی بھی عزت نفس ہے اس لیے انہیں بھی اپنے جیسا کھانا اور لباس دینا چاہیے تاکہ ان میں احساس کمتری پیدا نہ ہو۔ ایسا کرنے سے ان کے دل میں مالکان کی محبت پیدا ہوگی۔ اس لیے ابو الیسر رضی اللہ عنہ نے یہ بھی گوارا نہ کیا کہ لباس کی نوعیت میں معمولی سا بھی فرق ہو۔ یہ ان کا تقویٰ اور ورع تھا ورنہ بعینہٖ لباس ضروری نہیں مقصود یہ ہے کہ خود عمدہ کھاؤ تو انہیں بھی عمدہ کھلاؤ اور خود اعلیٰ پہنو تو انہیں بھی اعلیٰ پہناؤ۔ عصر حاضر میں ہمارا ملازمین خصوصاً گھریلو ملازمین سے رویہ نہایت قابل افسوس ہے کہ پس خوردہ ان کو دیا جاتا ہے۔ اپنے پرانے کپڑے ان کو عطا کیے جاتے ہیں نتیجتاً وہ بھی خیر خواہی اور محبت کے جذبات سے عاری ہوتے ہیں اور محض ڈیوٹی برائے ڈیوٹی کی صورت میں دن گزارتے ہیں اور خیانت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔
تخریج : صحیح:أخرجه مسلم، کتاب الزهد، باب حدیث جابر الطویل وقصة أبي الیسر:۳۰۰۶۔ مطلب یہ ہے کہ غلام اور خدام بھی انسان ہیں اور ان کی بھی عزت نفس ہے اس لیے انہیں بھی اپنے جیسا کھانا اور لباس دینا چاہیے تاکہ ان میں احساس کمتری پیدا نہ ہو۔ ایسا کرنے سے ان کے دل میں مالکان کی محبت پیدا ہوگی۔ اس لیے ابو الیسر رضی اللہ عنہ نے یہ بھی گوارا نہ کیا کہ لباس کی نوعیت میں معمولی سا بھی فرق ہو۔ یہ ان کا تقویٰ اور ورع تھا ورنہ بعینہٖ لباس ضروری نہیں مقصود یہ ہے کہ خود عمدہ کھاؤ تو انہیں بھی عمدہ کھلاؤ اور خود اعلیٰ پہنو تو انہیں بھی اعلیٰ پہناؤ۔ عصر حاضر میں ہمارا ملازمین خصوصاً گھریلو ملازمین سے رویہ نہایت قابل افسوس ہے کہ پس خوردہ ان کو دیا جاتا ہے۔ اپنے پرانے کپڑے ان کو عطا کیے جاتے ہیں نتیجتاً وہ بھی خیر خواہی اور محبت کے جذبات سے عاری ہوتے ہیں اور محض ڈیوٹی برائے ڈیوٹی کی صورت میں دن گزارتے ہیں اور خیانت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔