الادب المفرد - حدیث 175

كِتَابُ بَابُ لِيَجْتَنِبِ الْوَجْهَ فِي الضَّرْبِ حَدَّثَنَا خَالِدٌ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِدَابَّةٍ قَدْ وُسِمَ يُدَخِّنُ مَنْخِرَاهُ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((لَعَنَ اللَّهُ مَنْ فَعَلَ هَذَا، لَا يَسِمَنَّ أَحَدٌ الْوَجْهَ وَلَا يَضْرِبَنَّهُ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 175

کتاب چہرے پر مارنے سے اجتناب کا بیان حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک جانور کے پاس سے گزرے جسے داغا گیا تھا اور اس کے نتھنوں سے داغنے کی وجہ سے دھواں نکل رہا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے یہ کیا ہے اس پر اللہ کی لعنت ہو، کوئی شخص ہرگز چہرے پر نہ داغے اور نہ اس پر مارے۔‘‘
تشریح : (۱)جانوروں یا انسانوں کو داغنے کے جواز اور عدم جواز سے متعلق دونوں طرح کے دلائل ملتے ہیں راجح مسلک درج ذیل ہے: ٭ کسی بھی جانور یا انسان کے چہرے پر داگنا ناجائز اور حرام ہے۔ ٭ انسان کو چہرے کے علاوہ جسم کے کسی دوسرے حصے پر بیماری وغیرہ کی وجہ سے داغنا جائز ہے، تاہم افضل یہ ہے کہ اس سے اجتناب کیا جائے۔ ٭ جانوروں کو چہرے کے علاوہ داغنا جائز ہے، البتہ زکاۃ اور جزیے کے جانوروں کو (بطور علامت)داغنا مستحب ہے۔ (۲) جہاں تک چہرے پر مارنے کا تعلق ہے تو جانور اور انسان ہر دو کے چہرے پر مارنا منع ہے کیونکہ چہرہ قابل احترام ہے، البتہ یہ حرمت انسان کے حق میں زیادہ شدید ہے۔
تخریج : صحیح:أخرجه مسلم، اللباس والزینة:۲۱۱۷، ۲۱۱۶۔ وأبي داود:۲۵۶۴۔ والترمذي:۱۷۱۰۔ الصحیحة:۲۱۴۹۔ (۱)جانوروں یا انسانوں کو داغنے کے جواز اور عدم جواز سے متعلق دونوں طرح کے دلائل ملتے ہیں راجح مسلک درج ذیل ہے: ٭ کسی بھی جانور یا انسان کے چہرے پر داگنا ناجائز اور حرام ہے۔ ٭ انسان کو چہرے کے علاوہ جسم کے کسی دوسرے حصے پر بیماری وغیرہ کی وجہ سے داغنا جائز ہے، تاہم افضل یہ ہے کہ اس سے اجتناب کیا جائے۔ ٭ جانوروں کو چہرے کے علاوہ داغنا جائز ہے، البتہ زکاۃ اور جزیے کے جانوروں کو (بطور علامت)داغنا مستحب ہے۔ (۲) جہاں تک چہرے پر مارنے کا تعلق ہے تو جانور اور انسان ہر دو کے چہرے پر مارنا منع ہے کیونکہ چہرہ قابل احترام ہے، البتہ یہ حرمت انسان کے حق میں زیادہ شدید ہے۔