الادب المفرد - حدیث 164

كِتَابُ بَابُ الْعَفْوِ عَنِ الْخَادِمِ حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وَلَيْسَ لَهُ خَادِمٌ، فَأَخَذَ أَبُو طَلْحَةَ بِيَدِي، فَانْطَلَقَ بِي حَتَّى أَدْخَلَنِي عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، إِنَّ أَنَسًا غُلَامٌ كَيِّسٌ لَبِيبٌ، فَلْيَخْدُمْكَ. قَالَ: فَخَدَمْتُهُ فِي السَّفَرِ وَالْحَضَرِ، مَقْدَمَهُ الْمَدِينَةَ حَتَّى تُوُفِّيَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا قَالَ لِي لِشَيْءٍ صَنَعْتُ: لِمَ صَنَعْتَ هَذَا هَكَذَا؟ وَلَا قَالَ لِي لِشَيْءٍ لَمْ أَصْنَعْهُ: أَلَا صَنَعْتَ هَذَا هَكَذَا؟

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 164

کتاب خادم سے درگزر کرنے کا بیان حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ طیبہ تشریف لائے تو آپ کے پاس کوئی خادم نہیں تھا، چنانچہ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے میرا ہاتھ پکڑا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا:اللہ کے نبی! انس بڑا ذہین و فطین اور ہوشیار بچہ ہے، لہٰذا یہ آپ کی خدمت کرے گا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ کی مدینہ تشریف آوری سے وفات تک حضر و سفر میں آپ کی خدمت کی۔ آپ نے کبھی میرے کسی (نامناسب)کام پر یہ نہیں کہا کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟ اور نہ میرے کسی کام کے سر انجام نہ دینے پر یہ کہا کہ تم نے ایسا کیوں نہیں کیا؟
تشریح : یہ حدیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق کی واضح دلیل ہے۔ ایک روایت میں حضرت انس فرماتے ہیں کہ آپ نے کبھی مجھے اف بھی نہیں کہا (صحیح مسلم، حدیث:۲۳۰۹)، نیز امت کے لیے راہنمائی ہے کہ وہ ماتحتوں کے ساتھ کیسا سلوک کریں۔ یہ رویہ ذاتی خدمت میں کوتاہی کے حوالے سے ہونا چاہیے شرعی امور کے بارے میں کوتاہی پر ڈانٹ ڈپٹ اور محاسبہ نہ صرف جائز بلکہ مطلوب ہے۔
تخریج : صحیح:أخرجه البخاري، الوصایا، باب استخدام الیتیم في السفر والحضر:۲۷۶۸، ۶۰۳۸۔ ومسلم:۲۳۰۹۔ یہ حدیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق کی واضح دلیل ہے۔ ایک روایت میں حضرت انس فرماتے ہیں کہ آپ نے کبھی مجھے اف بھی نہیں کہا (صحیح مسلم، حدیث:۲۳۰۹)، نیز امت کے لیے راہنمائی ہے کہ وہ ماتحتوں کے ساتھ کیسا سلوک کریں۔ یہ رویہ ذاتی خدمت میں کوتاہی کے حوالے سے ہونا چاہیے شرعی امور کے بارے میں کوتاہی پر ڈانٹ ڈپٹ اور محاسبہ نہ صرف جائز بلکہ مطلوب ہے۔