الادب المفرد - حدیث 163

كِتَابُ بَابُ الْعَفْوِ عَنِ الْخَادِمِ حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ هُوَ ابْنُ سَلَمَةَ قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو غَالِبٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ: أَقْبَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَهُ غُلَامَانِ، فَوَهَبَ أَحَدُهُمَا لِعَلِيٍّ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَقَالَ: ((لَا تَضْرِبْهُ، فَإِنِّي نُهِيتُ عَنْ ضَرْبِ أَهْلِ الصَّلَاةِ، وَإِنِّي رَأَيْتُهُ يُصَلِّي مُنْذُ أَقْبَلْنَا)) ، وَأَعْطَى أَبَا ذَرٍّ غُلَامًا وَقَالَ: ((اسْتَوْصِ بِهِ مَعْرُوفًا)) ، فَأَعْتَقَهُ، فَقَالَ: ((مَا فَعَلَ؟)) قَالَ: أَمَرْتَنِي أَنْ أَسْتَوْصِي بِهِ خَيْرًا، فَأَعْتَقْتُهُ

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 163

کتاب خادم سے درگزر کرنے کا بیان حضرت ابو امامۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے جبکہ آپ کے ساتھ دو غلام تھے۔ ان میں سے ایک آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو عطا فرمایا اور نصیحت کی:’’اسے مارنا نہیں ہے کیونکہ مجھے نمازی (مسلمان)غلاموں کو مارنے سے منع کیا گیا ہے اور یہ جب سے ہمارے پاس آیا ہے میں نے اسے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔‘‘ اور ایک غلام حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کو دیا اور یوں نصیحت فرمائی:’’اس کے بارے میں اچھائی کی وصیت قبول کرو۔‘‘ تو انہوں نے اسے آزاد کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا:’’تونے اس غلام کا کیا کیا؟‘‘ انہوں نے عرض کیا:آپ نے مجھے اس کے بارے میں حسن سلوک کی وصیت قبول کرنے کا حکم دیا تو میں نے اسے آزاد کر دیا۔
تشریح : (۱)رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عرب کی بیشتر معیشت کا دارومدار غلاموں اور لونڈیوں پر تھا۔ ان کی خرید و فروخت ہوتی تھی اور ان کی حیثیت مال و متاع سے زیادہ نہیں تھی۔ لوگ ان کے ساتھ حیوانوں سے بھی بدتر سلوک کرتے تھے۔ غلامی کے اس قانون کو یکسر ختم کرنا چونکہ ممکن نہ تھا اس لیے آپ نے اسے باقی رکھا، تاہم غلاموں سے حسن سلوک اور انہیں آزاد کرنے کی بہت زیادہ ترغیب دلائی۔ ایک شخص نے آپ سے دریافت کیا:اللہ کے رسول! میں غلاموں کو دن میں کتنی بار معاف کروں؟ آپ خاموش رہے۔ تیسری مرتبہ پوچھنے پر فرمایا:’’اسے ہر روز ستر مرتبہ معاف کرو۔‘‘ (صحیح سنن ابي داود، حدیث:۴۳۰۱) (۲) نوکر اور ملازم کی حیثیت اگرچہ غلام والی نہیں کیونکہ غلام کا تو اپنا کچھ نہیں ہوتا اور ملازم آزاد ہوتا ہے۔ وہ کسی بھی جگہ جاسکتا ہے لیکن غلام کے لیے ایسا کرنا جائز نہیں۔ جب غلاموں سے حسن سلوک کا حکم ہے جن کی حیثیت مال کی ہے تو ملازمین کے ساتھ بالاولیٰ حسن سلوک کرنا چاہیے کیونکہ وہ غلاموں سے بہرحال زیادہ مقام و مرتبہ رکھتے ہیں۔ (۳) غلامی کا تصور اگرچہ ختم ہوچکا ہے لیکن مستقبل میں ایسا ہونا ممکن ہے۔ (۴) نمازی شخص دوسرے کی نسبت زیادہ حسن سلوک کا مستحق ہے کیونکہ وہ احکام الٰہی کی پابندی کرتا ہے اس لیے اس کی قدر ہونی چاہیے۔ پھر غلام کو مارنے کی ضرورت ادب سکھانے یا کوتاہی کرنے کی صورت میں ہوتی ہے تو جو شخص حقوق اللہ کی پاسداری کرتا ہے وہ یقیناً اپنے آقا کے حقوق کا بھی ضرور خیال رکھے گا اس لیے اس پر بلاوجہ سختی ناجائز ہے۔ (۵) سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے غلام کو آزاد کر دیا کیونکہ کمال حسن سلوک تو یہی ہے کہ اسے غلامی سے ہی آزاد کر دیا جائے تاکہ وہ آزادانہ زندگی گزارے اور یہ بہت عزیمت والا کام ہے۔ (۶) اس حدیث سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اخلاق اور رعایا کی خبر گیری رکھنے، نیز غریب اور نادار لوگوں سے آپ کے لطف و کرم کا پتہ چلتا ہے۔
تخریج : حسن:أخرجه أحمد:۲۲۱۵۴۔ والطبراني في الکبیر:۸؍ ۲۷۵۔ ومحمد بن نصر في تعظیم قدر الصلاۃ مختصرًا:۹۷۷۔ والبیهقي في شعب الایمان نحوہ:۴؍ ۲۹۲۔ الصحیحة:۱۴۲۸۔ (۱)رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عرب کی بیشتر معیشت کا دارومدار غلاموں اور لونڈیوں پر تھا۔ ان کی خرید و فروخت ہوتی تھی اور ان کی حیثیت مال و متاع سے زیادہ نہیں تھی۔ لوگ ان کے ساتھ حیوانوں سے بھی بدتر سلوک کرتے تھے۔ غلامی کے اس قانون کو یکسر ختم کرنا چونکہ ممکن نہ تھا اس لیے آپ نے اسے باقی رکھا، تاہم غلاموں سے حسن سلوک اور انہیں آزاد کرنے کی بہت زیادہ ترغیب دلائی۔ ایک شخص نے آپ سے دریافت کیا:اللہ کے رسول! میں غلاموں کو دن میں کتنی بار معاف کروں؟ آپ خاموش رہے۔ تیسری مرتبہ پوچھنے پر فرمایا:’’اسے ہر روز ستر مرتبہ معاف کرو۔‘‘ (صحیح سنن ابي داود، حدیث:۴۳۰۱) (۲) نوکر اور ملازم کی حیثیت اگرچہ غلام والی نہیں کیونکہ غلام کا تو اپنا کچھ نہیں ہوتا اور ملازم آزاد ہوتا ہے۔ وہ کسی بھی جگہ جاسکتا ہے لیکن غلام کے لیے ایسا کرنا جائز نہیں۔ جب غلاموں سے حسن سلوک کا حکم ہے جن کی حیثیت مال کی ہے تو ملازمین کے ساتھ بالاولیٰ حسن سلوک کرنا چاہیے کیونکہ وہ غلاموں سے بہرحال زیادہ مقام و مرتبہ رکھتے ہیں۔ (۳) غلامی کا تصور اگرچہ ختم ہوچکا ہے لیکن مستقبل میں ایسا ہونا ممکن ہے۔ (۴) نمازی شخص دوسرے کی نسبت زیادہ حسن سلوک کا مستحق ہے کیونکہ وہ احکام الٰہی کی پابندی کرتا ہے اس لیے اس کی قدر ہونی چاہیے۔ پھر غلام کو مارنے کی ضرورت ادب سکھانے یا کوتاہی کرنے کی صورت میں ہوتی ہے تو جو شخص حقوق اللہ کی پاسداری کرتا ہے وہ یقیناً اپنے آقا کے حقوق کا بھی ضرور خیال رکھے گا اس لیے اس پر بلاوجہ سختی ناجائز ہے۔ (۵) سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے غلام کو آزاد کر دیا کیونکہ کمال حسن سلوک تو یہی ہے کہ اسے غلامی سے ہی آزاد کر دیا جائے تاکہ وہ آزادانہ زندگی گزارے اور یہ بہت عزیمت والا کام ہے۔ (۶) اس حدیث سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اخلاق اور رعایا کی خبر گیری رکھنے، نیز غریب اور نادار لوگوں سے آپ کے لطف و کرم کا پتہ چلتا ہے۔