الادب المفرد - حدیث 159

كِتَابُ بَابُ سُوءِ الْمَلَكَةِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ: حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ لِلنَّاسِ: نَحْنُ أَعْرَفُ بِكُمْ مِنَ الْبَيَاطِرَةِ بِالدَّوَابِّ، قَدْ عَرَفْنَا خِيَارَكُمْ مِنْ شِرَارِكُمْ. أَمَّا خِيَارُكُمُ: الَّذِي يُرْجَى خَيْرُهُ، وَيُؤْمَنُ شَرُّهُ. وَأَمَّا شِرَارُكُمْ: فَالَّذِي لَا يُرْجَى خَيْرُهُ، وَلَا يُؤْمَنُ شَرُّهُ، وَلَا يُعْتَقُ مُحَرَّرُهُ

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 159

کتاب غلاموں سے بدسلوکی کی ممانعت حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ لوگوں سے کہا کرتے تھے:ہم تمہیں اس سے زیادہ جانتے ہیں جتنا جانوروں کا علاج کرنے والے جانوروں کو جانتے ہیں۔ ہم ان لوگوں کو بھی جانتے ہیں جو تم میں اچھے ہیں اور انہیں بھی جو تم میں برے ہیں۔ تمہارے اچھے لوگ وہ ہیں جن کی بھلائی کی امید کی جاتی ہے اور جن کے شر سے لوگوں کو اطمینان ہو۔ اور برے وہ لوگ ہیں جن سے خیر کی امید نہیں کی جاتی اور ان کے شر سے بھی امان نہیں اور ان کا آزاد کردہ بھی آزاد نہیں ہوتا۔
تشریح : سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے اچھے اور برے لوگوں کی پہچان بتائی کہ برے لوگ وہ ہیں جن کی شرارتوں سے لوگ ہر وقت خوف زدہ رہیں اور ان سے خیر کی توقع کم ہی ہو اور اچھے لوگ وہ ہیں جو بے ضرر اور لوگوں کے خیر خواہ ہوں اور لوگ ان سے اچھائی ہی کی امید رکھتے ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’’کچھ لوگ خیر کی چابیاں اور شر کے تالے ہوتے ہیں (یعنی ان سے خیر ہی سرزد ہوتا ہے)اور کچھ شر کی چابیاں اور خیر کے لیے تالے ہوتے ہیں (یعنی ان سے خیر کی توقع کم ہی ہوتی ہے)چنانچہ جس کو اللہ تعالیٰ خیر کی چابیاں بنا دے اس کے لیے خوشخبری ہے اور تباہی ہے اس کے لیے جو شر کی چابی ہے۔ (سنن ابن ماجة، المقدمة، حدیث:۲۳۷) نیز اس سے مومن کی متانت اور ذہانت کا پتہ چلا کہ وہ خیر اور شر، اچھے اور برے کو خوب پہچانتا ہے۔ آخر میں حضرت ابودرداء نے برے لوگوں کی ایک مزید نشانی بتائی کہ وہ کسی غلام کو آزاد نہیں کرتے اور اگر کردیں تو بھی اس سے خدمت کا مطالبہ کرتے ہیں اور آزادی دینے کا احسان جتلاتے رہتے ہیں۔
تخریج : صحیح الإسناد موقوفا وقد صح منه مرفوعا جملة الخیار والشرار دون العتق۔ المشکاۃ:۴۹۹۳۔ رواہ البیهقي في شعب الإیمان:۱۳؍ ۱۸۹۔ وابن عبدالبر في جامع بیان العلم:۱؍ ۶۰۸۔ وأبو نعیم في الحلیة:۱؍ ۲۲۱۔ سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے اچھے اور برے لوگوں کی پہچان بتائی کہ برے لوگ وہ ہیں جن کی شرارتوں سے لوگ ہر وقت خوف زدہ رہیں اور ان سے خیر کی توقع کم ہی ہو اور اچھے لوگ وہ ہیں جو بے ضرر اور لوگوں کے خیر خواہ ہوں اور لوگ ان سے اچھائی ہی کی امید رکھتے ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’’کچھ لوگ خیر کی چابیاں اور شر کے تالے ہوتے ہیں (یعنی ان سے خیر ہی سرزد ہوتا ہے)اور کچھ شر کی چابیاں اور خیر کے لیے تالے ہوتے ہیں (یعنی ان سے خیر کی توقع کم ہی ہوتی ہے)چنانچہ جس کو اللہ تعالیٰ خیر کی چابیاں بنا دے اس کے لیے خوشخبری ہے اور تباہی ہے اس کے لیے جو شر کی چابی ہے۔ (سنن ابن ماجة، المقدمة، حدیث:۲۳۷) نیز اس سے مومن کی متانت اور ذہانت کا پتہ چلا کہ وہ خیر اور شر، اچھے اور برے کو خوب پہچانتا ہے۔ آخر میں حضرت ابودرداء نے برے لوگوں کی ایک مزید نشانی بتائی کہ وہ کسی غلام کو آزاد نہیں کرتے اور اگر کردیں تو بھی اس سے خدمت کا مطالبہ کرتے ہیں اور آزادی دینے کا احسان جتلاتے رہتے ہیں۔