الادب المفرد - حدیث 157

كِتَابُ بَابُ حُسْنِ الْمَلَكَةِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَابِقٍ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((أَجِيبُوا الدَّاعِيَ، وَلَا تَرُدُّوا الْهَدِيَّةَ، وَلَا تَضْرِبُوا الْمُسْلِمِينَ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 157

کتاب غلاموں سے اچھا برتاؤ کرنے کا بیان حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’دعوت دینے والے کی دعوت قبول کرو اور تحفہ واپس نہ کرو، نیز مسلمانوں کو نہ مارو۔‘‘
تشریح : (۱)اگر شرعی عذر نہ ہو تو دعوت قبول کرنا فرض ہے۔ شرعی عذرسے مراد یہ ہے کہ دعوت میں کوئی شریعت کے منافي امور ہوں، جیسے شادی بیاہ کے موقع پر ڈھول وغیرہ، یا دعوت دینے والے کا مال حرام کا ہو، یا انسان کسی شدید مصروفیت کی وجہ سے شامل نہ ہوسکتا ہو یا اس سے کسی نقصان کا خدشہ ہو یا آپ نے اس کی سفارش کی ہو جس کے صلے میں دعوت کرنے والا دعوت دے رہا ہو تو دعوت کو رد کیا جاسکتا ہے۔ (۲) تحائف کے تبادلے سے باہمی محبت اور صلہ رحمی میں اضافہ ہوتا ہے، اور اللہ کے لیے محبت اور صلہ رحمی بہت بڑی نیکی ہے اس لیے شریعت نے ایک دوسرے کو تحائف دینے کی ترغیب دلائی ہے۔ ہدیہ اور تحفہ قبول نہ کرنے سے بغض و عداوت اور بدظنی پیدا ہوتی ہے اس لیے بلاوجہ تحفہ رد کرنا منع ہے، البتہ اگر معقول وجہ ہو تو تحفہ قبول کرنے سے معذرت کی جاسکتی ہے، مثلاً جج یا انتظامی امور کے نگران کو اگر کوئی شخص اپنا کام نکلوانے کی خاطر تحفہ دے تو وہ رد کرسکتا ہے۔ (۳) مسلمان کی جان اور ا سکا مال نہایت محترم ہے، اس لیے مسلمانوں کو ایذا دینا بہت بڑا گناہ ہے، بالخصوص انہیں مارنا پیٹنا اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس کا حساب روز قیامت نیکیاں دے کر چکانا پڑے گا اور نیکی اس روز سب سے قیمتی متاع ہوگی۔ (۴) اس حدیث میں مذکور آپ کے ارشادات کا بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک پر امن، خوشگوار اور غم خوارمعاشرہ ان ہدایات پر عمل کرکے قائم کیا جاسکتا ہے۔ کاش اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ان فرامین پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔ (۵) حدیث کا باب سے تعلق یہ ہے کہ لوگ غلاموں کو جانوروں کی طرح بے دریغ مارتے تھے۔ حدیث میں اس سے روکا گیا ہے، نیز اگر غلام اور معاشرے کا غریب فرد دعوت کرے یا ہدیہ دے تو اسے بھی قبول کرنا چاہیے۔
تخریج : صحیح:أخرجه أحمد:۳۸۳۸۔ وابن ابي شیبة:۶؍ ۵۵۵۔ والطبراني في الکبیر:۱۰؍ ۱۹۷۔ وأبي یعلی:۵۴۱۲۔ وابن حبان:۵۶۰۳۔ الإرواء:۱۶۱۶۔ (۱)اگر شرعی عذر نہ ہو تو دعوت قبول کرنا فرض ہے۔ شرعی عذرسے مراد یہ ہے کہ دعوت میں کوئی شریعت کے منافي امور ہوں، جیسے شادی بیاہ کے موقع پر ڈھول وغیرہ، یا دعوت دینے والے کا مال حرام کا ہو، یا انسان کسی شدید مصروفیت کی وجہ سے شامل نہ ہوسکتا ہو یا اس سے کسی نقصان کا خدشہ ہو یا آپ نے اس کی سفارش کی ہو جس کے صلے میں دعوت کرنے والا دعوت دے رہا ہو تو دعوت کو رد کیا جاسکتا ہے۔ (۲) تحائف کے تبادلے سے باہمی محبت اور صلہ رحمی میں اضافہ ہوتا ہے، اور اللہ کے لیے محبت اور صلہ رحمی بہت بڑی نیکی ہے اس لیے شریعت نے ایک دوسرے کو تحائف دینے کی ترغیب دلائی ہے۔ ہدیہ اور تحفہ قبول نہ کرنے سے بغض و عداوت اور بدظنی پیدا ہوتی ہے اس لیے بلاوجہ تحفہ رد کرنا منع ہے، البتہ اگر معقول وجہ ہو تو تحفہ قبول کرنے سے معذرت کی جاسکتی ہے، مثلاً جج یا انتظامی امور کے نگران کو اگر کوئی شخص اپنا کام نکلوانے کی خاطر تحفہ دے تو وہ رد کرسکتا ہے۔ (۳) مسلمان کی جان اور ا سکا مال نہایت محترم ہے، اس لیے مسلمانوں کو ایذا دینا بہت بڑا گناہ ہے، بالخصوص انہیں مارنا پیٹنا اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس کا حساب روز قیامت نیکیاں دے کر چکانا پڑے گا اور نیکی اس روز سب سے قیمتی متاع ہوگی۔ (۴) اس حدیث میں مذکور آپ کے ارشادات کا بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک پر امن، خوشگوار اور غم خوارمعاشرہ ان ہدایات پر عمل کرکے قائم کیا جاسکتا ہے۔ کاش اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ان فرامین پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔ (۵) حدیث کا باب سے تعلق یہ ہے کہ لوگ غلاموں کو جانوروں کی طرح بے دریغ مارتے تھے۔ حدیث میں اس سے روکا گیا ہے، نیز اگر غلام اور معاشرے کا غریب فرد دعوت کرے یا ہدیہ دے تو اسے بھی قبول کرنا چاہیے۔