الادب المفرد - حدیث 156

كِتَابُ بَابُ حُسْنِ الْمَلَكَةِ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ الْفَضْلِ قَالَ: حَدَّثَنَا نُعَيْمُ بْنُ يَزِيدَ قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا ثَقُلَ قَالَ: ((يَا عَلِيُّ، ائْتِنِي بِطَبَقٍ أَكْتُبْ فِيهِ مَا لَا تَضِلُّ أُمَّتِي بَعْدِي)) ، فَخَشِيتُ أَنْ يَسْبِقَنِي فَقُلْتُ: إِنِّي لَأَحْفَظُ مِنْ ذِرَاعَيِ الصَّحِيفَةِ، وَكَانَ رَأْسُهُ بَيْنَ ذِرَاعِي وَعَضُدِي، فَجَعَلَ يُوصِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ، وَقَالَ كَذَاكَ حَتَّى فَاضَتْ نَفْسُهُ، وَأَمَرَهُ بِشَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، مَنْ شَهِدَ بِهِمَا حُرِّمَ عَلَى النَّارِ

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 156

کتاب غلاموں سے اچھا برتاؤ کرنے کا بیان حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت جب زیادہ ناساز ہوگئی تو آپ نے فرمایا:’’اے علی! میرے پاس کوئی پارچہ لاؤ جس میں وہ بات لکھ دوں جس سے میری امت بھٹکنے سے محفوظ ہو جائے۔‘‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ڈرا کہ میرے کاغذ لانے سے پہلے آپ اللہ کو پیارے نہ ہو جائیں تو میں نے کہا:میں خود ہی یاد کرلوں گا۔ اس وقت آپ کا سر میرے بازو کے درمیان تھا۔ آپ نے نماز، زکاۃ اور غلاموں سے حسن سلوک کی وصیت فرمائی اور یہ کہتے کہتے اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اور آپ نے لا إله إلاَّ اللّٰهُ واَنَّ محمداً عبده ورسوله کہنے کا حکم دیا (اور فرمایا:)’’جس نے ان دونوں کی گواہی دی اس پر دوزخ کی آگ حرام ہوگئی۔‘‘
تشریح : یہ روایت سنداً ضعیف ہے اس لیے قابل استدلال نہیں۔ البتہ غلاموں سے حسن سلوک کرنے کا حکم دوسری احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ اسی طرح شہادتین کی فضیلت بھی دوسری احادیث میں آتی ہے۔ کچھ الفاظ کا فرق ہے۔ غالباً اسی وجہ سے مترجم نے بھی اس کا ترجمہ نہیں کیا اس کی وضاحت ’’فضل اللہ الصمد‘‘ میں دیکھیں۔
تخریج : ضعیف:أخرجه أحمد:۶۹۳۔ وابن سعد في الطبقات:۲؍ ۲۴۳۔ والمزي في تهذیب الکمال:۲۱؍ ۴۸۲۔ التعلیق الرغیب:۲؍ ۲۳۷۔ یہ روایت سنداً ضعیف ہے اس لیے قابل استدلال نہیں۔ البتہ غلاموں سے حسن سلوک کرنے کا حکم دوسری احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ اسی طرح شہادتین کی فضیلت بھی دوسری احادیث میں آتی ہے۔ کچھ الفاظ کا فرق ہے۔ غالباً اسی وجہ سے مترجم نے بھی اس کا ترجمہ نہیں کیا اس کی وضاحت ’’فضل اللہ الصمد‘‘ میں دیکھیں۔