الادب المفرد - حدیث 15

كِتَابُ بَابُ عُقُوقِ الْوَالِدَيْنِ حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْفَضْلِ قَالَ: حَدَّثَنَا الْجُرَيْرِيُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((أَلَا أُنَبِّئُكُمْ بِأَكْبَرِ الْكَبَائِرِ؟)) ثَلَاثًا، قَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: ((الْإِشْرَاكُ بِاللَّهِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ - وَجَلَسَ وَكَانَ مُتَّكِئًا - أَلَا وَقَوْلُ الزُّورِ)) ، مَا زَالَ يُكَرِّرُهَا حَتَّى قُلْتُ: لَيْتَهُ سَكَتَ

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 15

کتاب والدین کی نافرمانی كرنا حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں تمہیں بہت بڑے گناہوں کے متعلق نہ بتاؤں؟‘‘ تین بار آپ نے فرمایا: انہوں نے کہا: اللہ کے رسول ضرور بتلائیے، آپ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا۔‘‘ آپ ٹیک لگائے ہوئے تھے اور سیدھے ہوکر بیٹھ گئے اور (فرمایا:)’’خبردار! جھوٹ بولنا!‘‘ آپ اس کو بار بار فرماتے رہے یہاں تک کہ میں نے (دل میں)کہا: کاش کہ آپ خاموش ہو جاتے۔
تشریح : (۱)کبیرہ گناہوں کی تعداد کے متعلق اختلاف ہے جس کی تفصیل حدیث: ۸ کی شرح میں گزر چکی ہے۔ افراد، جگہ اور وقت کے لحاظ سے بسا اوقات کبیرہ گناہ کی شناعت اور بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔ گناہ سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اس کی قباحت سے واقف ہو اور اس کے مفاسد اسے معلوم ہوں۔ (۲) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گاہے گاہے اپنے صحابہ کو مہلک گناہوں سے متنبہ کرتے رہتے تھے تاکہ وہ اس سے اجتناب کرکے رضا الٰہی کو حاصل کرلیں۔ اس میں ایک داعی کے لیے رہنمائی ہے کہ وہ اپنے عوام اور شاگردوں کو خیر اور شر کے متعلق آگاہ کرتا رہے، بالخصوص ایسے گناہوں سے ضرور متنبہ کرے جو اللہ تعالیٰ کی شدید ناراضی کا باعث بنتے ہیں۔ (۳) اس حدیث میں علمائے کرام کے لیے رہنمائی ہے کہ عوام الناس کو کسی بڑے عظیم مسئلے سے آگاہ کرنے سے پہلے انہیں ذہنی طور پر تیار کریں تاکہ بات زیادہ مؤثر طریقے سے ان تک پہنچ سکے۔ جس طرح زمین میں جڑی بوٹیاں تو ویسے ہی اگ آتی ہیں لیکن کوئی ضرورت کی فصل کاشت کرنے کے لیے اسے ہموار کرنا پڑتا ہے، بعینہٖ انسان کی صورت حال ہے عام فضول باتیں فوراً ذہن میں اتر جاتی ہیں اور بندہ انہیں قبول کرلیتا ہے لیکن کسی اہمیت کی حامل چیز کے لیے ذہن سازی کی ضرورت ہوتی ہے جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کو ’’ألا أنبئکم‘‘ کہہ کر متنبہ کیا۔ (۴) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں بالترتیب تین خطرناک گناہوں کا ذکر فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا: ٭ شرک تمام گناہوں کی جڑ اور اصل ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک سے پناہ مانگی ہے اس لیے کہ شرک کے ہوتے ہوئے انسان کے تمام اعمال برباد ہو جاتے ہیں۔ شرک کی دو عمومی قسمیں ہیں: (۱) شرک اکبر (۲) شرک اصغر شرک اکبر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات، اس کی ذات اور کمالات میں کسی کو اس کا ساجھی سمجھنا، اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نفع و نقصان، مدد کرنے، حاجتیں پوری کرنے کا اہل سمجھنا، مشکلات حل کروانے کے لیے اللہ کے سوا کسی اور کو پکارنا وغیرہ سب شرک اکبر کے زمرے میں آتے ہیں۔ شرک اصغر یہ ہے کہ وہ اعمال جو خالص اللہ کی خوشنودی کے لیے کرنے چاہئیں ان میں کسی اور کی رضا شامل ہو جائے یا اس سے دکھلاوا مقصود ہو جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تم سے جس کا زیادہ خدشہ ہے وہ شرک اصغر یعنی ریاکاری ہے۔ الحدیث۔ ٭ دوسرا کبیرہ ترین گناہ والدین کی نافرمانی۔ اس سے مراد والدین کو اذیت پہنچانا ہے۔ والدین کی معصیت کرنا اور ان کی باتوں کو ٹھکرا دینا نافرمانی کے زمرے میں آتا ہے۔ عقوق، عق سے ماخوذ ہے جس کے معنی کسی چیز کو پھاڑنے اور قطع کرنے کے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنی عبادت کا حکم دیا ہے وہیں والدین کے ساتھ نیکی کا حکم بھی دیا ہے۔ اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ والدین کی نافرمانی کو قرار دیا ہے۔ دور حاضر میں لوگ دوست واحباب کی بات تو رد نہیں کرتے لیکن والدین کی نافرمانی کرتے ہوئے انہیں ذرا ندامت نہیں ہوئی! یہ رویہ محل نظر ہے۔ ٭ تیسرا بڑا گناہ قول زور کو قرار دیا گیا ہے صحیح مسلم وغیرہ کی بعض روایات میں شہادت زورکو اکبر الکبائر میں شامل کیا گیا ہے۔ زور کی تعریف: ....جھوٹ، باطل، کسی پر تہمت لگانا، خلاف حقیقت کسی چیز کی تحسین کرنا سب زور اور قول زور کے زمرے میں آتا ہے۔ مفاسد کے اعتبار سے جھوٹ کے مختلف درجات ہیں۔ قاضی ابن العربی نے انہیں چار انواع میں تقسیم کیا ہے: ۱۔ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنا اور یہ سب سے شدید ترین صورت ہے۔ ۲۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولنا مثلاً: یہ کہنا کہ آپ نے فرمایا، حالانکہ وہ بات آپ نے نہ کہی ہو۔ ۳۔ لوگوں کے خلاف جھوٹ بولنا، مثلاً جھوٹی گواہی وغیرہ دے کر کسی کے حق کو تلف کرنا وغیرہ۔ ۴۔ لوگوں کے لیے جھوٹ بولنا اور اس کی قبیح ترین صورت معاملات میں جھوٹ بولنا ہے۔ قول زور کا تذکرہ کرتے وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے طرز کلام کو بدل دیا وہ اس طرح کہ ٹیک لگائے ہوئے تھے تو بیٹھ گئے اور ایک ہی بات کو بار بار دہرایا۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ جھوٹ شرک سے بڑا گناہ ہے بلکہ آپ نے ایسا اس لیے کیا کہ لوگ جھوٹ بے دریغ بول لیتے ہیں اس کی کوئی پروا نہیں کرتے، پھر شرک کا نقصان اپنی ذات تک محدود ہے اور حقوق والدین کا نقصان چند مخصوص افراد تک خاص ہے لیکن جھوٹ کا فساد اور نقصان اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اور اس سے پورا معاشرہ یا ملک متاثر ہوسکتا ہے اس لیے اس کی شناعت کو واضح کیا گیا۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ جھوٹ کے بہت سے عوامل ہیں، مثلاً کینہ، حسد اور دشمنی وغیرہ جبکہ شرک اور حقوق والدین میں ایسا نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس اس کے بہت سے موانع موجود ہیں مثلاً شرک اور حقوق والدین سے انسان کی فطرت سلیم روکتی ہے۔ (۵) ’’آپ کا سیدھے ہوکر بیٹھ جانا اور پھر بار بار اس بات کو دہرانا‘‘ اس میں داعی اور خطیب کے لیے یہ سبق ہے کہ اسے دعوت کے لیے مؤثر ترین ذریعہ اپنانا چاہیے۔ دوران خطابت بہت زیادہ اشارات اور حرکات اگرچہ ناپسندیدہ ہیں اور باچھیں پھاڑ کر گفتگو کرنا ممنوع ہے لیکن مناسب حد تک حرکت درست ہے۔ بات کو بار بار دہرانا بات کی اہمیت کو بڑھا دیتا ہے اور تاثیر کا ایک ذریعہ ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ دعوت دین کے لیے رائج الوقت ذریعہ تاثیر کا اپنانا جائز ہے جب تک کہ شرعی عذر مانع نہ ہو۔ جب دعوت میں اخلاص ہو اور مؤثر ترین ذریعہ بھی اپنایا جائے تو بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں کو بدل دے۔ (۶) لیتہ سکت: اس سے معلوم ہوا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کس قدر خیال رکھتے تھے کہ آپ کی بے قراری اور پریشانی ہرگز برداشت نہ کرسکتے تھے۔ ایسا ہی معاملہ شاگرد کو استاد کے ساتھ کرنا چاہیے کہ استاد کے سامنے کوئی ایسی حرکت نہ کرے جو اسے پریشان کرے۔ کسی بھی بات سے انسان متأثر اس وقت ہوتا ہے جب گفتگو کرنے والے کی عزت و اکرام اس کے دل میں ہو اور وہ داعی سے محبت کرتا ہو اور تکلیف میں دیکھنا اسے گوارہ نہ ہو۔
تخریج : صحیح: أخرجه البخاري، الأدب، باب عقوق الوالدین من الکبائر: ۵۹۷۶۔ ومسلم: ۱۴۳۔ غایة المرام: ۲۷۷۔ (۱)کبیرہ گناہوں کی تعداد کے متعلق اختلاف ہے جس کی تفصیل حدیث: ۸ کی شرح میں گزر چکی ہے۔ افراد، جگہ اور وقت کے لحاظ سے بسا اوقات کبیرہ گناہ کی شناعت اور بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔ گناہ سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اس کی قباحت سے واقف ہو اور اس کے مفاسد اسے معلوم ہوں۔ (۲) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گاہے گاہے اپنے صحابہ کو مہلک گناہوں سے متنبہ کرتے رہتے تھے تاکہ وہ اس سے اجتناب کرکے رضا الٰہی کو حاصل کرلیں۔ اس میں ایک داعی کے لیے رہنمائی ہے کہ وہ اپنے عوام اور شاگردوں کو خیر اور شر کے متعلق آگاہ کرتا رہے، بالخصوص ایسے گناہوں سے ضرور متنبہ کرے جو اللہ تعالیٰ کی شدید ناراضی کا باعث بنتے ہیں۔ (۳) اس حدیث میں علمائے کرام کے لیے رہنمائی ہے کہ عوام الناس کو کسی بڑے عظیم مسئلے سے آگاہ کرنے سے پہلے انہیں ذہنی طور پر تیار کریں تاکہ بات زیادہ مؤثر طریقے سے ان تک پہنچ سکے۔ جس طرح زمین میں جڑی بوٹیاں تو ویسے ہی اگ آتی ہیں لیکن کوئی ضرورت کی فصل کاشت کرنے کے لیے اسے ہموار کرنا پڑتا ہے، بعینہٖ انسان کی صورت حال ہے عام فضول باتیں فوراً ذہن میں اتر جاتی ہیں اور بندہ انہیں قبول کرلیتا ہے لیکن کسی اہمیت کی حامل چیز کے لیے ذہن سازی کی ضرورت ہوتی ہے جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کو ’’ألا أنبئکم‘‘ کہہ کر متنبہ کیا۔ (۴) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں بالترتیب تین خطرناک گناہوں کا ذکر فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا: ٭ شرک تمام گناہوں کی جڑ اور اصل ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک سے پناہ مانگی ہے اس لیے کہ شرک کے ہوتے ہوئے انسان کے تمام اعمال برباد ہو جاتے ہیں۔ شرک کی دو عمومی قسمیں ہیں: (۱) شرک اکبر (۲) شرک اصغر شرک اکبر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات، اس کی ذات اور کمالات میں کسی کو اس کا ساجھی سمجھنا، اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نفع و نقصان، مدد کرنے، حاجتیں پوری کرنے کا اہل سمجھنا، مشکلات حل کروانے کے لیے اللہ کے سوا کسی اور کو پکارنا وغیرہ سب شرک اکبر کے زمرے میں آتے ہیں۔ شرک اصغر یہ ہے کہ وہ اعمال جو خالص اللہ کی خوشنودی کے لیے کرنے چاہئیں ان میں کسی اور کی رضا شامل ہو جائے یا اس سے دکھلاوا مقصود ہو جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تم سے جس کا زیادہ خدشہ ہے وہ شرک اصغر یعنی ریاکاری ہے۔ الحدیث۔ ٭ دوسرا کبیرہ ترین گناہ والدین کی نافرمانی۔ اس سے مراد والدین کو اذیت پہنچانا ہے۔ والدین کی معصیت کرنا اور ان کی باتوں کو ٹھکرا دینا نافرمانی کے زمرے میں آتا ہے۔ عقوق، عق سے ماخوذ ہے جس کے معنی کسی چیز کو پھاڑنے اور قطع کرنے کے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنی عبادت کا حکم دیا ہے وہیں والدین کے ساتھ نیکی کا حکم بھی دیا ہے۔ اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ والدین کی نافرمانی کو قرار دیا ہے۔ دور حاضر میں لوگ دوست واحباب کی بات تو رد نہیں کرتے لیکن والدین کی نافرمانی کرتے ہوئے انہیں ذرا ندامت نہیں ہوئی! یہ رویہ محل نظر ہے۔ ٭ تیسرا بڑا گناہ قول زور کو قرار دیا گیا ہے صحیح مسلم وغیرہ کی بعض روایات میں شہادت زورکو اکبر الکبائر میں شامل کیا گیا ہے۔ زور کی تعریف: ....جھوٹ، باطل، کسی پر تہمت لگانا، خلاف حقیقت کسی چیز کی تحسین کرنا سب زور اور قول زور کے زمرے میں آتا ہے۔ مفاسد کے اعتبار سے جھوٹ کے مختلف درجات ہیں۔ قاضی ابن العربی نے انہیں چار انواع میں تقسیم کیا ہے: ۱۔ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنا اور یہ سب سے شدید ترین صورت ہے۔ ۲۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولنا مثلاً: یہ کہنا کہ آپ نے فرمایا، حالانکہ وہ بات آپ نے نہ کہی ہو۔ ۳۔ لوگوں کے خلاف جھوٹ بولنا، مثلاً جھوٹی گواہی وغیرہ دے کر کسی کے حق کو تلف کرنا وغیرہ۔ ۴۔ لوگوں کے لیے جھوٹ بولنا اور اس کی قبیح ترین صورت معاملات میں جھوٹ بولنا ہے۔ قول زور کا تذکرہ کرتے وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے طرز کلام کو بدل دیا وہ اس طرح کہ ٹیک لگائے ہوئے تھے تو بیٹھ گئے اور ایک ہی بات کو بار بار دہرایا۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ جھوٹ شرک سے بڑا گناہ ہے بلکہ آپ نے ایسا اس لیے کیا کہ لوگ جھوٹ بے دریغ بول لیتے ہیں اس کی کوئی پروا نہیں کرتے، پھر شرک کا نقصان اپنی ذات تک محدود ہے اور حقوق والدین کا نقصان چند مخصوص افراد تک خاص ہے لیکن جھوٹ کا فساد اور نقصان اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اور اس سے پورا معاشرہ یا ملک متاثر ہوسکتا ہے اس لیے اس کی شناعت کو واضح کیا گیا۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ جھوٹ کے بہت سے عوامل ہیں، مثلاً کینہ، حسد اور دشمنی وغیرہ جبکہ شرک اور حقوق والدین میں ایسا نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس اس کے بہت سے موانع موجود ہیں مثلاً شرک اور حقوق والدین سے انسان کی فطرت سلیم روکتی ہے۔ (۵) ’’آپ کا سیدھے ہوکر بیٹھ جانا اور پھر بار بار اس بات کو دہرانا‘‘ اس میں داعی اور خطیب کے لیے یہ سبق ہے کہ اسے دعوت کے لیے مؤثر ترین ذریعہ اپنانا چاہیے۔ دوران خطابت بہت زیادہ اشارات اور حرکات اگرچہ ناپسندیدہ ہیں اور باچھیں پھاڑ کر گفتگو کرنا ممنوع ہے لیکن مناسب حد تک حرکت درست ہے۔ بات کو بار بار دہرانا بات کی اہمیت کو بڑھا دیتا ہے اور تاثیر کا ایک ذریعہ ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ دعوت دین کے لیے رائج الوقت ذریعہ تاثیر کا اپنانا جائز ہے جب تک کہ شرعی عذر مانع نہ ہو۔ جب دعوت میں اخلاص ہو اور مؤثر ترین ذریعہ بھی اپنایا جائے تو بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں کو بدل دے۔ (۶) لیتہ سکت: اس سے معلوم ہوا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کس قدر خیال رکھتے تھے کہ آپ کی بے قراری اور پریشانی ہرگز برداشت نہ کرسکتے تھے۔ ایسا ہی معاملہ شاگرد کو استاد کے ساتھ کرنا چاہیے کہ استاد کے سامنے کوئی ایسی حرکت نہ کرے جو اسے پریشان کرے۔ کسی بھی بات سے انسان متأثر اس وقت ہوتا ہے جب گفتگو کرنے والے کی عزت و اکرام اس کے دل میں ہو اور وہ داعی سے محبت کرتا ہو اور تکلیف میں دیکھنا اسے گوارہ نہ ہو۔