الادب المفرد - حدیث 148

كِتَابُ بَابُ فَضْلِ مَنْ مَاتَ لَهُ الْوَلَدُ حَدَّثَنَا عَلِيٌّ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ: حَدَّثَنَا سُهَيْلُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا لَا نَقْدِرُ عَلَيْكَ فِي مَجْلِسِكَ، فَوَاعِدْنَا يَوْمًا نَأْتِكَ فِيهِ، فَقَالَ: ((مَوْعِدُكُنَّ بَيْتُ فُلَانٍ)) ، فَجَاءَهُنَّ لِذَلِكَ الْوَعْدِ، وَكَانَ فِيمَا حَدَّثَهُنَّ: ((مَا مِنْكُنَّ امْرَأَةٌ يَمُوتُ لَهَا ثَلَاثٌ مِنَ الْوَلَدِ، فَتَحْتَسِبَهُمْ، إِلَّا دَخَلَتِ الْجَنَّةَ)) ، فَقَالَتِ امْرَأَةٌ: أَوِ اثْنَانِ؟ قَالَ: ((أَوَِ اثْنَانِ)) كَانَ سُهَيْلٌ يَتَشَدَّدُ فِي الْحَدِيثِ وَيَحْفَظُ، وَلَمْ يَكُنْ أَحَدٌ يَقْدِرُ أَنْ يَكْتُبَ عِنْدَهُ

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 148

کتاب اس شخص کی فضیلت جس کا بچہ فوت ہوجائے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور اس نے عرض کیا:اللہ کے رسول! ہم آپ کی خدمت میں حاضر نہیں ہوسکتیں، لہٰذا ہمارے لیے ایک دن مقرر کر دیں جس میں ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔ آپ نے فرمایا:فلان کے گھر تمہارے ساتھ وعدہ ہے، چنانچہ آپ حسب وعدہ ان کے پاس تشریف لائے اور انہیں جو وعظ فرمایا، اس میں یہ بات بھی تھی:’’تم میں سے جس عورت کے تین بچے فوت ہوجائیں اور وہ ان پر ثواب کی امید رکھے، وہ ضرور جنت میں جائے گی۔ ایک عورت نے عرض کیا:اور دو بچے؟ آپ نے فرمایا:’’دو کا بھی یہی حکم ہے۔‘‘ راوی حدیث سہیل بن ابی صالح حدیث کے لکھنے میں بڑی سختی کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اسے یاد رکھو۔ ان کے سامنے کوئی حدیث لکھ نہیں سکتا تھا۔
تشریح : (۱)بچے خصوصاً معصوم ماں کو بہت عزیز ہوتے ہیں اور دل کی کمزوری کی وجہ سے اکثر مائیں اولاد کی وفات پر جزع فزع کرتی ہیں اس لیے آپ نے صبر کرنے کی تلقین کی اور اس کا طریقہ اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید ہے۔ (۲) اس روایت میں اگرچہ عورتوں کو یہ بشارت دی گئی ہے تاہم مردوں کے لیے بھی صبر کرنے اور ثواب کی امید رکھنے میں یہی اجر ہے۔ عورتوں کی کم ہمتی کی وجہ سے ان کا خصوصی ذکر کیا۔ (۳) سلف صالحین لکھنے سے زیادہ حافظے پر اعتماد کرتے تھے۔ لکھنے کی عادت پڑ جائے تو پھر انسان یاد کرنے کی طرف کم توجہ دیتا ہے اس طرح حافظہ بھی کمزور ہوجاتا ہے۔ خصوصاً درس و تدریس کے موقع پر لکھنے سے زیادہ سمجھنے اور ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے سہیل بن أبی صالح اپنے شاگردوں کو لکھنے سے منع کرتے تھے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ حدیث لکھنا ناجائز سمجھتے تھے۔ (۴) اس سے معلوم ہوا کہ عورتیں بھی دینی پروگراموں میں شامل ہوسکتی ہیں بلکہ دینی احکام انہیں بھی ضرور سیکھنے چاہئیں تاہم ان کے لیے خصوصی دروس کا اہتمام بھی ہونا چاہیے۔
تخریج : صحیح:أخرجه أحمد:۷۳۵۷۔ الصحیحة:۲۶۸۰۔ (۱)بچے خصوصاً معصوم ماں کو بہت عزیز ہوتے ہیں اور دل کی کمزوری کی وجہ سے اکثر مائیں اولاد کی وفات پر جزع فزع کرتی ہیں اس لیے آپ نے صبر کرنے کی تلقین کی اور اس کا طریقہ اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید ہے۔ (۲) اس روایت میں اگرچہ عورتوں کو یہ بشارت دی گئی ہے تاہم مردوں کے لیے بھی صبر کرنے اور ثواب کی امید رکھنے میں یہی اجر ہے۔ عورتوں کی کم ہمتی کی وجہ سے ان کا خصوصی ذکر کیا۔ (۳) سلف صالحین لکھنے سے زیادہ حافظے پر اعتماد کرتے تھے۔ لکھنے کی عادت پڑ جائے تو پھر انسان یاد کرنے کی طرف کم توجہ دیتا ہے اس طرح حافظہ بھی کمزور ہوجاتا ہے۔ خصوصاً درس و تدریس کے موقع پر لکھنے سے زیادہ سمجھنے اور ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے سہیل بن أبی صالح اپنے شاگردوں کو لکھنے سے منع کرتے تھے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ حدیث لکھنا ناجائز سمجھتے تھے۔ (۴) اس سے معلوم ہوا کہ عورتیں بھی دینی پروگراموں میں شامل ہوسکتی ہیں بلکہ دینی احکام انہیں بھی ضرور سیکھنے چاہئیں تاہم ان کے لیے خصوصی دروس کا اہتمام بھی ہونا چاہیے۔