الادب المفرد - حدیث 14

كِتَابُ بَابُ جَزَاءِ الْوَالِدَيْنِ وَحَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ شَيْبَةَ قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي الْفُدَيْكِ قَالَ: حَدَّثَنِي مُوسَى، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، أَنَّ أَبَا مُرَّةَ، مَوْلَى أُمِّ هَانِئِ ابْنَةِ أَبِي طَالِبٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ رَكِبَ مَعَ أَبِي هُرَيْرَةَ إِلَى أَرْضِهِ بِالْعَقِيقِ فَإِذَا دَخَلَ أَرْضَهُ صَاحَ بِأَعْلَى صَوْتِهِ: عَلَيْكِ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ يَا أُمَّتَاهُ، تَقُولُ: وَعَلَيْكَ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، يَقُولُ: رَحِمَكِ اللَّهُ رَبَّيْتِنِي صَغِيرًا، فَتَقُولُ: يَا بُنَيَّ، وَأَنْتَ فَجَزَاكَ اللَّهُ خَيْرًا وَرَضِيَ عَنْكَ كَمَا بَرَرْتَنِي كَبِيرًا قَالَ مُوسَى: كَانَ اسْمُ أَبِي هُرَيْرَةَ: عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 14

کتاب والدین کے احسان کا بدلہ دینے کا بیان ام ہانی بنت ابو طالب کے آزاد کردہ غلام ابو مرہ نے بتایا کہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ سوار ہو کر عقیق علاقے میں ان کی زمین کی طرف گیا۔ جب وہ اپنی زمین میں داخل ہوئے تو انہوں نے بآواز بلند کہا: اے میری ماں تجھ پر سلامتی ہو اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں۔ ان کی والدہ نے جواب میں ایسے ہی کلمات کہے۔ پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ تجھ پر رحم فرمائے جس طرح بچپن میں تونے میری پرورش کی ہے۔ ان کی والدہ نے فرمایا: میرے بیٹے اللہ آپ کو بہترین بدلہ دے اور آپ سے راضی اور خوش ہو، جیسے تونے بڑے ہوکر میرے ساتھ حسن سلوک کیا۔ راوی حدیث موسیٰ بن یعقوب کہتے ہیں: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا نام عبداللہ بن عمرو ہے۔
تشریح : (۱)ہر قوم میں ملاقات کے وقت کچھ الفاظ کہنے کا رواج اور ملنے کا مخصوص انداز ہے۔ اسلام میں ملاقات کا انداز نہایت انوکھا ہے جو نہ صرف محبت کا اظہار ہے بلکہ نیکی کی ترغیب بھی ہے اور ادائے حق محبت بھی۔ سلام کہنے والا دوسرے بھائی کے لیے سلامتی اور خیر کی دعا بھی کرتا ہے اور اسے یہ بھی بتانا ہے کہ تم میرے شر سے محفوظ ومأمون ہو۔ (۲) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ گھر جاکر سلام کہنا چاہیے اور یہ مسئلہ بھی ثابت ہوا کہ اگر فتنے وغیرہ کا اندیشہ نہ ہو تو مرد عورت کو سلام کہہ سکتا ہے جس طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنی والدہ کو سلام کہا تھا۔ اس کی مشروعیت بعض دوسری احادیث سے بھی ثابت ہوتی ہے، جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں آتا ہے۔ (۳) کسی کے احسان کا اس کے سامنے اعتراف کرنا جائز ہے اور یہ منہ پر تعریف کرنے کے زمرے میں نہیں آتا۔ اور کسی کے لیے دعا کرتے وقت اس کے عمل صالح کا تذکرہ کرنا چاہیے اس لیے کہ یہ عمل دعا کی قبولیت کا زیادہ باعث ہے۔ (۴) جب کسی کے ساتھ کوئی نیکی کرے اور وہ جواب میں جزاك اللہ خیراً کہہ دے تو اس نے گویا حق ادا کر دیا۔ جس طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس کے ساتھ کوئی نیکی کی جائے اور وہ جواب میں ’’جزاك اللہ خیراً‘‘ کہے تو اس نے تعریف کا پورا پورا حق ادا کر دیا۔ (صحیح سنن الترمذي: ۱۶۵۷)
تخریج : حسن: انظر الحدیث: ۱۲۔ (۱)ہر قوم میں ملاقات کے وقت کچھ الفاظ کہنے کا رواج اور ملنے کا مخصوص انداز ہے۔ اسلام میں ملاقات کا انداز نہایت انوکھا ہے جو نہ صرف محبت کا اظہار ہے بلکہ نیکی کی ترغیب بھی ہے اور ادائے حق محبت بھی۔ سلام کہنے والا دوسرے بھائی کے لیے سلامتی اور خیر کی دعا بھی کرتا ہے اور اسے یہ بھی بتانا ہے کہ تم میرے شر سے محفوظ ومأمون ہو۔ (۲) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ گھر جاکر سلام کہنا چاہیے اور یہ مسئلہ بھی ثابت ہوا کہ اگر فتنے وغیرہ کا اندیشہ نہ ہو تو مرد عورت کو سلام کہہ سکتا ہے جس طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنی والدہ کو سلام کہا تھا۔ اس کی مشروعیت بعض دوسری احادیث سے بھی ثابت ہوتی ہے، جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں آتا ہے۔ (۳) کسی کے احسان کا اس کے سامنے اعتراف کرنا جائز ہے اور یہ منہ پر تعریف کرنے کے زمرے میں نہیں آتا۔ اور کسی کے لیے دعا کرتے وقت اس کے عمل صالح کا تذکرہ کرنا چاہیے اس لیے کہ یہ عمل دعا کی قبولیت کا زیادہ باعث ہے۔ (۴) جب کسی کے ساتھ کوئی نیکی کرے اور وہ جواب میں جزاك اللہ خیراً کہہ دے تو اس نے گویا حق ادا کر دیا۔ جس طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس کے ساتھ کوئی نیکی کی جائے اور وہ جواب میں ’’جزاك اللہ خیراً‘‘ کہے تو اس نے تعریف کا پورا پورا حق ادا کر دیا۔ (صحیح سنن الترمذي: ۱۶۵۷)