الادب المفرد - حدیث 139

كِتَابُ بَابُ كُنَّ لِلْيَتِيمِ كَالْأَبِ الرَّحِيمِ حَدَّثَنَا مُوسَى قَالَ: حَدَّثَنَا حَمْزَةُ بْنُ نَجِيحٍ أَبُو عُمَارَةَ قَالَ: سَمِعْتُ الْحَسَنَ يَقُولُ: لَقَدْ عَهِدْتُ الْمُسْلِمِينَ، وَإِنَّ الرَّجُلَ مِنْهُمْ لَيُصْبِحُ فَيَقُولُ: يَا أَهْلِيَهْ، يَا أَهْلِيَهْ، يَتِيمَكُمْ يَتِيمَكُمْ، يَا أَهْلِيَهْ، يَا أَهْلِيَهْ، مِسْكِينَكُمْ مِسْكِينَكُمْ، يَا أَهْلِيَهْ، يَا أَهْلِيَهْ، جَارَكُمْ جَارَكُمْ، وَأُسْرِعَ بِخِيَارِكُمْ وَأَنْتُمْ كُلَّ يَوْمٍ تَرْذُلُونَ ". وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: وَإِذَا شِئْتَ رَأَيْتَهُ فَاسِقًا يَتَعَمَّقُ بِثَلَاثِينَ أَلْفًا إِلَى النَّارِ مَا لَهُ قَاتَلَهُ اللَّهُ؟ بَاعَ خَلَاقَهُ مِنَ اللَّهِ بِثَمَنِ عَنْزٍ، وَإِنْ شِئْتَ رَأَيْتَهُ مُضَيِّعًا مُرْبَدًّا فِي سَبِيلِ الشَّيْطَانِ، لَا وَاعِظَ لَهُ مِنْ نَفْسِهِ وَلَا مِنَ النَّاسِ

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 139

کتاب یتیم کے لیے رحم دل باپ کی طرح ہو جاؤ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے مسلمانوں کا وہ دور بھی پایا ہے کہ آدمی صبح اٹھتے ہی کہتا تھا:اے گھر والو، اے اہل خانہ! اپنے یتیم کا خیال رکھنا اور اس کی خدمت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھنا، اے گھر والو! اپنے مسکین کا خیال رکھو اور اے گھر والو! اے اہل خانہ! اپنے پڑوسی کی خبر لو اور اس کا خیال کرو۔ تمہارے اچھے لوگ جلدی جا رہے ہیں اور تم ہر روز دینی طور پر پست ہوتے جا رہے ہو۔ (راوی کہتا ہے)اور میں نے انہیں یہ فرماتے ہوئے بھی سنا:اور آج اگر تو کسی فاسق کو دیکھنا چاہیے تو دیکھ سکتا ہے جو تیس ہزار (گناہوں میں)خرچ کرکے جہنم کی طرف جارہا ہے۔ اس شخص کو کیا ہے؟ اللہ اسے غارت کرے اس نے اپنا حصہ جو اللہ سے (ثواب کی صورت میں)مل سکتا تھا ایک بکری کی قیمت (معمولی قیمت)کے بدلے بیچ دیا (یعنی اتنا زیادہ معمولی لذت نفس میں اڑا دیا)اور اگر تو کسی ایسے شخص کو دیکھنا چاہے جس نے اپنا کھلیان (یعنی ساری دولت)شیطان کی راہ میں خرچ کرکے ضائع کر دی تو ایسا شخص بھی دیکھا جاسکتا ہے یہ اس کا ضمیر اسے ملامت کرتا ہے اور نہ لوگوں میں سے کوئی اسے صحیح راہ پر لانے والا ہے۔
تشریح : یہ حسن بصری رحمہ اللہ کا قول اگرچہ سنداً ضعیف ہے تاہم في الواقع ایسے ہی ہے کہ اب فقراء اور یتیموں کا ذرہ خیال نہیں کیا جاتا۔ جبکہ خیرون القرون میں اس کا خوب اہتمام تھا، نیز اب گناہوں کو لوگ قیمتاً خریدتے ہیں اور دنیا کی معمولی لذت کی خاطر آخرت کا نقصان کرکے انہیں ذرہ بھر ندامت نہیں ہوتی۔
تخریج : ضعیف۔ یہ حسن بصری رحمہ اللہ کا قول اگرچہ سنداً ضعیف ہے تاہم في الواقع ایسے ہی ہے کہ اب فقراء اور یتیموں کا ذرہ خیال نہیں کیا جاتا۔ جبکہ خیرون القرون میں اس کا خوب اہتمام تھا، نیز اب گناہوں کو لوگ قیمتاً خریدتے ہیں اور دنیا کی معمولی لذت کی خاطر آخرت کا نقصان کرکے انہیں ذرہ بھر ندامت نہیں ہوتی۔