كِتَابُ بَابُ فَضْلِ مَنْ يَعُولُ يَتِيمًا مِنْ أَبَوَيْهِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ: سَمِعْتُ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((أَنَا وَكَافِلُ الْيَتِيمِ فِي الْجَنَّةِ هَكَذَا)) ، وَقَالَ بِإِصْبَعَيْهِ السَّبَّابَةِ وَالْوُسْطَى
کتاب
اس شخص کی فضیلت جو ایسے یتیم کی پرورش کرتا ہے جس کے ماں باپ فوت ہوگئے ہیں
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ساتھ ہوں گے۔‘‘ آپ نے اپنی سبابہ اور درمیانی انگلی سے اشارہ کیا۔
تشریح :
جنت کے کئی درجات ہیں۔ سب سے آخر میں جنت میں جانے والا بھی رسول اکرم کے ساتھ ہوگا۔ لیکن اس کی منزل آپ سے بہت دور ہوگی۔ حدیث کا مقصد یہ ہے کہ یتیم کی کفالت کرنے والے کی منزل آپ کے قریب ہوگی جس طرح دونوں انگلیوں میں تفاوت ہے اسی طرح منازل میں بھی تفاوت ہوگا۔ (شرح صحیح الأدب المفرد، حدیث:۱۳۵)
تخریج :
صحیح:أخرجه البخاري، الأدب، باب فضل من یعول یتیمًا:۶۰۰۵۔ وأبي داود:۵۱۵۰۔ والترمذي:۱۹۱۸۔ الصحیحة:۸۰۰۔
جنت کے کئی درجات ہیں۔ سب سے آخر میں جنت میں جانے والا بھی رسول اکرم کے ساتھ ہوگا۔ لیکن اس کی منزل آپ سے بہت دور ہوگی۔ حدیث کا مقصد یہ ہے کہ یتیم کی کفالت کرنے والے کی منزل آپ کے قریب ہوگی جس طرح دونوں انگلیوں میں تفاوت ہے اسی طرح منازل میں بھی تفاوت ہوگا۔ (شرح صحیح الأدب المفرد، حدیث:۱۳۵)