كِتَابُ بَابُ الْجَفَاءِ حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنِ ابْنِ عَقِيلٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ ابْنِ الْحَنَفِيَّةِ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَخْمَ الرَّأْسِ، عَظِيمَ الْعَيْنَيْنِ، إِذَا مَشَى تَكَفَّأَ، كَأَنَّمَا يَمْشِي فِي صَعَدٍ، إِذَا الْتَفَتَ الْتَفَتَ جَمِيعًا
کتاب
جفا کا بیان
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سرمبارک بڑا تھا۔ آپ کی آنکھیں خوب موٹی تھیں۔ جب چلتے تو قدرے آگے کی طرف جھک کر چلتے ایسے معلوم ہوتا جیسے آپ کسی ڈھلان سے اتر رہے ہیں۔ جب کسی کی طرف متوجہ ہوتے تو پوری طرح متوجہ ہوتے۔
تشریح :
کسی کی طرف مکمل دھیان نہ دینا اور بات کسی کے ساتھ اور توجہ کسی اور طرف یہ چیز اعلیٰ اخلاق کے منافي ہے۔ تیز چلنا اور مکمل توجہ سے بات کرنا حیا کے منافي نہیں ہے اور نہ یہ جفا ہے۔
تخریج :
حسن:أخرجه أحمد:۶۸۴۔ انظر الصحیحة:۲۰۵۲۔
کسی کی طرف مکمل دھیان نہ دینا اور بات کسی کے ساتھ اور توجہ کسی اور طرف یہ چیز اعلیٰ اخلاق کے منافي ہے۔ تیز چلنا اور مکمل توجہ سے بات کرنا حیا کے منافي نہیں ہے اور نہ یہ جفا ہے۔