الادب المفرد - حدیث 1311

كِتَابُ بَابٌ: شَرُّ النَّاسِ مَنْ يُتَّقَى شَرُّهُ حَدَّثَنَا صَدَقَةُ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ الْمُنْكَدِرِ قَالَ: سَمِعَ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ: اسْتَأْذَنَ رَجُلٌ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ((ائْذَنُوا لَهُ، بِئْسَ أَخُو الْعَشِيرَةِ)) ، فَلَمَّا دَخَلَ أَلَانَ لَهُ الْكَلَامَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قُلْتَ الَّذِي قُلْتَ، ثُمَّ أَلَنْتَ الْكَلَامَ، قَالَ: ((أَيْ عَائِشَةُ، إِنَّ شَرَّ النَّاسِ مَنْ تَرَكَهُ النَّاسُ - أَوْ وَدَعَهُ النَّاسُ - اتِّقَاءَ فُحْشِهِ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 1311

کتاب لوگوں میں برا آدمی وہ ہے جس کے شر سے بچا جائے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت مانگی تو آپ نے فرمایا:’’اسے اجازت دے دو، یہ اپنے قبیلے کا برا آدمی ہے۔‘‘ چنانچہ جب وہ اندر آیا تو آپ نے اس کے ساتھ نرمی کے ساتھ گفتگو فرمائی۔ میں نے عرض کیا:اللہ کے رسول! آپ نے اس آدمی کے بارے میں جو فرمایا سو فرمایا:پھر آپ نے اس سے نرمی کے ساتھ گفتگو فرمائی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اے عائشہ! لوگوں میں سے بدترین وہ آدمی ہے جسے لوگ اس کی بد کلامی اور بدزبانی سے بچنے کے لیے چھوڑ دیں۔‘‘
تشریح : (۱)حدیث کا مفہوم یہ ہے جو شخص بدزبان ہو اس کی شرارتوں سے بچنے کے لیے ظاہراً اس کی تکریم کرنا جائز ہے تاکہ وہ بدکلامی کے ذریعے نقصان نہ پہنچائے۔ اسی طرح فاسق آدمی کے بارے میں لوگوں کو مطلع کرنا جائز ہے تاکہ وہ اس کی شرارتوں سے محفوظ رہیں اور یہ غیبت کے دائرے میں نہیں آتا۔ (۲) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بات اس کے بارے میں فرمائی وہ برحق تھی اور اس کے ساتھ جو معاملہ کیا وہ حسن اخلاق کی بنا پر تھا۔ (۳) یہ شخص عینیہ بن حصن فزاری تھا۔ جو مسلمان نہیں تھا لیکن باور یہ کراتا تھا کہ وہ مسلمان ہے۔ بعدازاں یہ مرتد ہوگیا اور اسے قیدی بنا کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس لایا گیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی اس کی بدتمیزی کا واقع صحیح بخاری میں درج ہے۔
تخریج : صحیح:أخرجه البخاري، کتاب الأدب، باب لم یکن النبي صلی الله علیه وسلم فاحشًا:۶۰۵۴۔ ومسلم:۲۵۹۱۔ وأبي داود:۴۷۹۱۔ والترمذي:۱۹۹۶۔ (۱)حدیث کا مفہوم یہ ہے جو شخص بدزبان ہو اس کی شرارتوں سے بچنے کے لیے ظاہراً اس کی تکریم کرنا جائز ہے تاکہ وہ بدکلامی کے ذریعے نقصان نہ پہنچائے۔ اسی طرح فاسق آدمی کے بارے میں لوگوں کو مطلع کرنا جائز ہے تاکہ وہ اس کی شرارتوں سے محفوظ رہیں اور یہ غیبت کے دائرے میں نہیں آتا۔ (۲) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بات اس کے بارے میں فرمائی وہ برحق تھی اور اس کے ساتھ جو معاملہ کیا وہ حسن اخلاق کی بنا پر تھا۔ (۳) یہ شخص عینیہ بن حصن فزاری تھا۔ جو مسلمان نہیں تھا لیکن باور یہ کراتا تھا کہ وہ مسلمان ہے۔ بعدازاں یہ مرتد ہوگیا اور اسے قیدی بنا کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس لایا گیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی اس کی بدتمیزی کا واقع صحیح بخاری میں درج ہے۔