الادب المفرد - حدیث 1302

كِتَابُ بَابُ مَنْ كَانَتْ لَهُ حَاجَةٌ فَهُوَ أَحَقُّ أَنْ يَذْهَبَ إِلَيْهِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ قَالَ: حَدَّثَنِي عُقَيْلُ بْنُ خَالِدٍ، أَنَّ سَعِيدَ بْنَ سُلَيْمَانَ بْنِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ جَاءَهُ يَسْتَأْذِنُ عَلَيْهِ يَوْمًا، فَأَذِنَ لَهُ وَرَأْسُهُ فِي يَدِ جَارِيَةٍ لَهُ تُرَجِّلُهُ، فَنَزَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: دَعْهَا تُرَجِّلُكَ، فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، لَوْ أَرْسَلْتَ إِلَيَّ جِئْتُكَ، فَقَالَ عُمَرُ: إِنَّمَا الْحَاجَةُ لِي

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 1302

کتاب جسے کوئی کام ہو اسے ہی جانا چاہیے سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ان کے ہاں آئے اور اندر آنے کی اجازت چاہی، اس (یعنی میں)نے اندر آنے کی اجازت دے دی جبکہ اس کا سر ایک لونڈی کے ہاتھ میں تھا جو اسے کنگھی کر رہی تھی۔ اس نے اپنا سر لونڈی سے چھڑانا چاہا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:اسے کنگھی کرنے دو۔ اس نے عرض کیا:امیر المومنین آپ مجھے پیغام بھیج دیتے تو میں حاضر ہو جاتا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:کام مجھے تھا (اس لیے مجھے ہی آنا چاہیے تھا)۔
تشریح : (۱)اس سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی تواضع اور انکساری کا پتہ چلتا ہے، نیز پتا چلا کہ صحابہ کرام ایک دوسرے کا بے حد احترام کرتے تھے۔ (۲) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ کو اپنایا کہ آپ بھی لوگوں کے ساتھ اسی طرح رہتے تھے اور ان کو خوب عزت دیتے۔ سفر میں اونٹ پر باری باری سوار ہوتے۔ (۳) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ دینی کام کی غرض سے گئے تھے اور وہ دادی کی وراثت کا مسئلہ تھا جس کے بارے میں حضرت زید کی رائے لینا چاہتے تھے۔ (۴) اس سے معلوم ہوا کہ علماء سے علم حاصل کرنے کے لیے ان کے گھر جانا چاہیے اور حکمرانوں اور امراء کا علماء کے ساتھ وہی انداز ہونا چاہیے جو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا زید رضی اللہ عنہ کے ساتھ اختیار کیا۔
تخریج : حسن:أخرجه أحمد:۵۲۱۔ وابن أبي الدنیا في ذم الملاهي:۱۱۷۔ وابن عساکر في تاریخ دمشق:۲۹؍ ۲۲۹۔ (۱)اس سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی تواضع اور انکساری کا پتہ چلتا ہے، نیز پتا چلا کہ صحابہ کرام ایک دوسرے کا بے حد احترام کرتے تھے۔ (۲) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ کو اپنایا کہ آپ بھی لوگوں کے ساتھ اسی طرح رہتے تھے اور ان کو خوب عزت دیتے۔ سفر میں اونٹ پر باری باری سوار ہوتے۔ (۳) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ دینی کام کی غرض سے گئے تھے اور وہ دادی کی وراثت کا مسئلہ تھا جس کے بارے میں حضرت زید کی رائے لینا چاہتے تھے۔ (۴) اس سے معلوم ہوا کہ علماء سے علم حاصل کرنے کے لیے ان کے گھر جانا چاہیے اور حکمرانوں اور امراء کا علماء کے ساتھ وہی انداز ہونا چاہیے جو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا زید رضی اللہ عنہ کے ساتھ اختیار کیا۔