كِتَابُ بَابُ جَزَاءِ الْوَالِدَيْنِ وَحَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُبَايِعُهُ عَلَى الْهِجْرَةِ، وَتَرَكَ أَبَوَيْهِ يَبْكِيَانِ، فَقَالَ: ((ارْجِعْ إِلَيْهِمَا، وَأَضْحِكْهُمَا كَمَا أَبْكَيْتَهُمَا))
کتاب
والدین کے احسان کا بدلہ دینے کا بیان
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہجرت کی بیعت کرنے کے لیے حاضر ہوا اور اس کے والدین (اس کی جدائی سے)رو رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ان کے پاس واپس جا اور انہیں ہنسا جس طرح تونے انہیں رلایا ہے۔‘‘
تشریح :
(۱)ہجرت کے لغوی معنی چھوڑنے کے ہیں، پھر یہ ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں منتقل ہونے پر بولا جانے لگا۔
ہجرت کا اصطلاحی مفہوم: اپنے دین و ایمان کو بچانے کے لیے دشمن کے علاقے کو چھوڑ کر مسلمانوں یا امن والے علاقے میں چلے جانا ہجرت کہلاتا ہے۔
شیخ البانی رحمہ اللہ شرح صحیح الادب المفرد میں فرماتے ہیں: ہجرت کی دو قسمیں ہیں:
ایک ہجرت وہ ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے جنت کا وعدہ کیا ہے اور یہ اولین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ہجرت ہے کہ انہوں نے اپنے اہل و عیال اور گھر بار چھوڑ دیے اور پھر واپس نہیں گئے۔
دوسرے وہ اعراب جو ہجرت کرکے مسلمانوں کے ساتھ مل کر جہاد کرتے رہے۔ لیکن جس طرح السابقون الاولون نے کیا انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ یہ بھی اگرچہ ہجرت ہے لیکن پہلے کے درجے میں داخل نہیں ہے۔
(۲) ہجرت بہت بڑا عمل ہے حتی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ یہ سابقہ تمام گناہوں کو ختم کر دیتی ہے (....)لیکن والدین کے ساتھ حسن سلوک اور انہیں خوش کرنا اس سے بھی بڑا عمل ہے۔
(۳) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ امام یا امیر کو مجاہد کے گھریلو حالات کا جائزہ ضرور لینا چاہیے اور کسی ایسے فرد کو جہاد وغیرہ کے لیے نہیں بھیجنا چاہیے جس کے والدین ناراض یا ناخوش ہوں بلکہ کارکن کو والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے اور انہیں خوش کرنے کی ترغیب دلانی چاہیے۔
(۴) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کسی اچھے کام کی نیت کی ہو اور کوئی دوسرا اس سے زیادہ اچھا کام آجائے تو نیت کو تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ بلکہ اگر آغاز بھی کرلیا ہو اور کوئی دوسرا اس سے زیادہ اچھا کام سامنے آجائے تو پہلے کو ترک دینا جائز ہے مثلاً: ایک آدمی نے کسی علاقے میں مدرسہ بنانے کی نیت سے زمین خریدی، حسن اتفاق سے اس علاقے میں کوئی اور مدرسہ بن گیا۔ اب وہاں ہسپتال کی اشد ضرورت ہے تو یہ اس جگہ ہسپتال بنا دے اور مدرسہ بنانے کی نیت ترک کر دے تو جائز بلکہ زیادہ اچھا ہوگا۔ جس طرح کہ اس شخص نے ہجرت کو چھوڑ دیا اور والدین کی خدمت اور انہیں خوش کرنے کے لیے چلا گیا۔
(۵) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ ’’اللہ کے رسول سب سے افضل اور بہتر شخص کون ہے تو آپ نے فرمایا: کسی مسلمان کو خوش کرنا سب سے بہترین عمل ہے۔‘‘ (الترغیب والترهیب للأصبهانی: ۱؍ ۴۷۵)جب عام لوگوں کو خوش کرنا اتنا بڑا عمل ہے تو والدین کو خوش کرنا کتنا بڑا عمل ہوگا۔ جو لوگ عام لوگوں کے ساتھ تو بڑے خوش اسلوبی سے پیش آتے ہیں اور والدین کے ساتھ ترش رویہ رکھتے ہیں انہیں اپنے فعل پر غور کر لینا چاہیے۔ والدین کو اذیت دینا اور انہیں رلانے والا کام کرنا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کو نہایت ناپسندیدہ ہیں۔ جب والدین کی ناراضگی کی صورت میں نیک کام کرنا درست نہیں تو ناجائز اور غلط کام کرکے والدین کو دکھ دینا کتنا بڑا جرم ہے۔
(۶) نیک کام تو والدین کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک کی وجہ سے ترک کرنا جائز ہے لیکن اطاعت والدین میں کسی حرام کام کا ارتکاب درست نہیں ہے۔ اگر والدین کسی ایسے کام کے کرنے کا حکم کریں اور نہ کرنے پر روئیں اور ناراض ہوں جو شرعاً ناجائز اور درست نہیں تو پھر والدین کی اطاعت ضروری نہیں بلکہ اطاعت نہ کرنا فرض ہے مثلاً: والدین اولاد کو بنک یا کسی سودی کمپنی میں ملازمت کرنے کا کہیں یا سودی کاروبار کرنے کا حکم دیں یا کسی کو مارنے اور اس پر ظلم کرنے کا حکم کریں تو اس صورت میں ان کی اطاعت نہ کرنا ضروری ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت جائز اور درست نہیں ہے۔
تخریج :
صحیح: ابو داود، الجهاد، باب فی الرجل یغزو وأبواه کارهان: ۲۵۲۸۔ والنسائي فی الکبریٰ، حدیث: ۸۶۹۶۔ من حدیث سفیان الثوري، والنسائي: ۴۱۶۳۔ وابن ماجة: ۲۷۸۲۔ صحیح الترغیب: ۲۴۸۱۔
(۱)ہجرت کے لغوی معنی چھوڑنے کے ہیں، پھر یہ ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں منتقل ہونے پر بولا جانے لگا۔
ہجرت کا اصطلاحی مفہوم: اپنے دین و ایمان کو بچانے کے لیے دشمن کے علاقے کو چھوڑ کر مسلمانوں یا امن والے علاقے میں چلے جانا ہجرت کہلاتا ہے۔
شیخ البانی رحمہ اللہ شرح صحیح الادب المفرد میں فرماتے ہیں: ہجرت کی دو قسمیں ہیں:
ایک ہجرت وہ ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے جنت کا وعدہ کیا ہے اور یہ اولین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ہجرت ہے کہ انہوں نے اپنے اہل و عیال اور گھر بار چھوڑ دیے اور پھر واپس نہیں گئے۔
دوسرے وہ اعراب جو ہجرت کرکے مسلمانوں کے ساتھ مل کر جہاد کرتے رہے۔ لیکن جس طرح السابقون الاولون نے کیا انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ یہ بھی اگرچہ ہجرت ہے لیکن پہلے کے درجے میں داخل نہیں ہے۔
(۲) ہجرت بہت بڑا عمل ہے حتی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ یہ سابقہ تمام گناہوں کو ختم کر دیتی ہے (....)لیکن والدین کے ساتھ حسن سلوک اور انہیں خوش کرنا اس سے بھی بڑا عمل ہے۔
(۳) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ امام یا امیر کو مجاہد کے گھریلو حالات کا جائزہ ضرور لینا چاہیے اور کسی ایسے فرد کو جہاد وغیرہ کے لیے نہیں بھیجنا چاہیے جس کے والدین ناراض یا ناخوش ہوں بلکہ کارکن کو والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے اور انہیں خوش کرنے کی ترغیب دلانی چاہیے۔
(۴) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کسی اچھے کام کی نیت کی ہو اور کوئی دوسرا اس سے زیادہ اچھا کام آجائے تو نیت کو تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ بلکہ اگر آغاز بھی کرلیا ہو اور کوئی دوسرا اس سے زیادہ اچھا کام سامنے آجائے تو پہلے کو ترک دینا جائز ہے مثلاً: ایک آدمی نے کسی علاقے میں مدرسہ بنانے کی نیت سے زمین خریدی، حسن اتفاق سے اس علاقے میں کوئی اور مدرسہ بن گیا۔ اب وہاں ہسپتال کی اشد ضرورت ہے تو یہ اس جگہ ہسپتال بنا دے اور مدرسہ بنانے کی نیت ترک کر دے تو جائز بلکہ زیادہ اچھا ہوگا۔ جس طرح کہ اس شخص نے ہجرت کو چھوڑ دیا اور والدین کی خدمت اور انہیں خوش کرنے کے لیے چلا گیا۔
(۵) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ ’’اللہ کے رسول سب سے افضل اور بہتر شخص کون ہے تو آپ نے فرمایا: کسی مسلمان کو خوش کرنا سب سے بہترین عمل ہے۔‘‘ (الترغیب والترهیب للأصبهانی: ۱؍ ۴۷۵)جب عام لوگوں کو خوش کرنا اتنا بڑا عمل ہے تو والدین کو خوش کرنا کتنا بڑا عمل ہوگا۔ جو لوگ عام لوگوں کے ساتھ تو بڑے خوش اسلوبی سے پیش آتے ہیں اور والدین کے ساتھ ترش رویہ رکھتے ہیں انہیں اپنے فعل پر غور کر لینا چاہیے۔ والدین کو اذیت دینا اور انہیں رلانے والا کام کرنا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کو نہایت ناپسندیدہ ہیں۔ جب والدین کی ناراضگی کی صورت میں نیک کام کرنا درست نہیں تو ناجائز اور غلط کام کرکے والدین کو دکھ دینا کتنا بڑا جرم ہے۔
(۶) نیک کام تو والدین کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک کی وجہ سے ترک کرنا جائز ہے لیکن اطاعت والدین میں کسی حرام کام کا ارتکاب درست نہیں ہے۔ اگر والدین کسی ایسے کام کے کرنے کا حکم کریں اور نہ کرنے پر روئیں اور ناراض ہوں جو شرعاً ناجائز اور درست نہیں تو پھر والدین کی اطاعت ضروری نہیں بلکہ اطاعت نہ کرنا فرض ہے مثلاً: والدین اولاد کو بنک یا کسی سودی کمپنی میں ملازمت کرنے کا کہیں یا سودی کاروبار کرنے کا حکم دیں یا کسی کو مارنے اور اس پر ظلم کرنے کا حکم کریں تو اس صورت میں ان کی اطاعت نہ کرنا ضروری ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت جائز اور درست نہیں ہے۔