الادب المفرد - حدیث 1284

كِتَابُ بَابُ الْوَسْوَسَةِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَّامٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا نَجِدُ فِي أَنْفُسِنَا شَيْئًا مَا نُحِبُّ أَنْ نَتَكَلَّمَ بِهِ وَإِنَّ لَنَا مَا طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ، قَالَ: ((أَوَ قَدْ وَجَدْتُمْ ذَلِكَ؟)) قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: ((ذَاكَ صَرِيحُ الْإِيمَانِ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 1284

کتاب وسوسے کا بیان سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا:اللہ کے رسول! ہم اپنے دل میں بسا اوقات ایسے وسوسے پاتے ہیں کہ ہم انہیں زبان پر لانا کسی صورت گوارہ نہیں کرتے خواہ ہمیں روئے زمین کی ساری دولت مل جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’کیا تم نے ایسی بات کو دل میں پایا؟‘‘ انہوں نے عرض کیا:جی ہاں! آپ نے فرمایا:’’یہ صریح اور خالص ایمان ہے۔‘‘
تشریح : (۱)وسوسے شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں اور ان سے نفرت خالص ایمان ہے جو اس وسوسے کو دل میں نہیں ٹھہرنے دیتا۔ یاد رہے کہ وسوسہ اس خیال کو کہتے ہیں جو دل میں متردد رہے اور قرار نہ پکڑے اور عزم کی صورت اختیار نہ کرے۔ (۲) ضروری اور اہم معاملات میں علماء سے رجوع کرنا چاہیے اور ان سے راہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ (۳) دل کے خیالات پر مواخذہ نہیں لیکن انہیں عزم کی صورت اختیار نہیں کرنے دینا چاہیے۔ کیونکہ عزم کی صورت میں گناہ ہو گا۔
تخریج : صحیح:أخرجه مسلم، کتاب الإیمان:۲۰۹؍ ۱۳۲۔ وأبي داود:۵۱۱۱۔ (۱)وسوسے شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں اور ان سے نفرت خالص ایمان ہے جو اس وسوسے کو دل میں نہیں ٹھہرنے دیتا۔ یاد رہے کہ وسوسہ اس خیال کو کہتے ہیں جو دل میں متردد رہے اور قرار نہ پکڑے اور عزم کی صورت اختیار نہ کرے۔ (۲) ضروری اور اہم معاملات میں علماء سے رجوع کرنا چاہیے اور ان سے راہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ (۳) دل کے خیالات پر مواخذہ نہیں لیکن انہیں عزم کی صورت اختیار نہیں کرنے دینا چاہیے۔ کیونکہ عزم کی صورت میں گناہ ہو گا۔