الادب المفرد - حدیث 1283

كِتَابُ بَابُ مَنِ امْتَخَطَ فِي ثَوْبِهِ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ تَمَخَّطَ فِي ثَوْبِهِ ثُمَّ قَالَ: بَخٍ بَخٍ، أَبُو هُرَيْرَةَ يَتَمَخَّطُ فِي الْكَتَّانِ، رَأَيْتُنِي أُصْرَعُ بَيْنَ حُجْرَةِ عَائِشَةَ وَالْمِنْبَرِ، يَقُولُ النَّاسُ: مَجْنُونٌ، وَمَا بِي إِلَّا الْجُوعُ

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 1283

کتاب کپڑے سے ناک کی رینٹ صاف کرنا سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کپڑے سے ناک صاف کیا، پھر فرمایا:واہ واہ ابو ہریرہ السی کے بنے ہوئے کپڑے سے ناک صاف کرتا ہے۔ میں نے خود کو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے اور منبر کے درمیان (بھوک کی وجہ سے)غشی کی حالت میں دیکھا ہے، لوگ (دیکھ کر)کہتے تھے:وہ دیوانہ ہے حالانکہ مجھے بھوک کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا تھا۔
تشریح : (۱)بوقت ضرورت کپڑے سے ناک کی رینٹ یا تھوک وغیرہ صاف کیا جاسکتا ہے اور پھر اسے دھو کر استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔ اس سے ٹشو کے استعمال کا جواز بھی معلوم ہوا۔ (۲) صحابہ کرام مال ودولت کی فراوانی کے بعد بھی اپنی آخرت کو نہیں بھولے۔ وہ کردار کے سچے تھے۔ ان میں دنیا داروں جیسا تکلف ہرگز نہ تھا۔ وہ اپنی سابقہ حالت پر ذرا نہ شرماتے بلکہ فقر پر فخر کرتے تھے۔ آج کل اگر کسی کے پاس پیسہ آجائے تو لوگ یہ باور کراتے ہیں کہ وہ شروع سے امیر ہی تھے۔ (۳) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات کو یاد کرنے کے لیے آپ کے دروازے پر بیٹھے رہتے تاکہ کوئی ارشاد نبوی یاد کرنے سے رہ نہ جائے ورنہ آپ بھی کما کر کھاسکتے تھے۔
تخریج : صحیح:أخرجه البخاري، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ:۷۳۲۴۔ والترمذي:۲۳۶۷۔ (۱)بوقت ضرورت کپڑے سے ناک کی رینٹ یا تھوک وغیرہ صاف کیا جاسکتا ہے اور پھر اسے دھو کر استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔ اس سے ٹشو کے استعمال کا جواز بھی معلوم ہوا۔ (۲) صحابہ کرام مال ودولت کی فراوانی کے بعد بھی اپنی آخرت کو نہیں بھولے۔ وہ کردار کے سچے تھے۔ ان میں دنیا داروں جیسا تکلف ہرگز نہ تھا۔ وہ اپنی سابقہ حالت پر ذرا نہ شرماتے بلکہ فقر پر فخر کرتے تھے۔ آج کل اگر کسی کے پاس پیسہ آجائے تو لوگ یہ باور کراتے ہیں کہ وہ شروع سے امیر ہی تھے۔ (۳) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات کو یاد کرنے کے لیے آپ کے دروازے پر بیٹھے رہتے تاکہ کوئی ارشاد نبوی یاد کرنے سے رہ نہ جائے ورنہ آپ بھی کما کر کھاسکتے تھے۔