الادب المفرد - حدیث 128

كِتَابُ بَابُ جَارِ الْيَهُودِيِّ حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا بَشِيرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو - وَغُلَامُهُ يَسْلُخُ شَاةً - فَقَالَ: يَا غُلَامُ، إِذَا فَرَغْتَ فَابْدَأْ بِجَارِنَا الْيَهُودِيِّ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: الْيَهُودِيُّ أَصْلَحَكَ اللَّهُ؟ قَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوصِي بِالْجَارِ، حَتَّى خَشِينَا أَوْ رُئِينَا أَنَّهُ سَيُوَرِّثُهُ

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 128

کتاب یہودی پڑوسی (کے ساتھ حسن سلوک)کا بیان حضرت مجاہد رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے پاس تھا اور ان کا غلام بکری کی کھال اتار رہا تھا۔ انہوں نے فرمایا:اے لڑکے! جب اس کام (گوشت وغیرہ بنانے)سے فارغ ہو جائے تو سب سے پہلے ہمارے یہودی ہمسائے کو گوشت دینا۔ حاضرین قوم میں سے کسی آدمی نے کہا:یہودی! (کو ہدیہ دلا رہے ہیں)اللہ آپ کی اصلاح کرے۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:یقیناً میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑوسی کے متعلق وصیت کرتے ہوئے سنا حتی کہ ہمیں خدشہ پیدا ہوگیا یا ہمیں خیال گزرا کہ آپ ضرور اسے وارث قرار دے دیں گے۔
تشریح : (۱)باب کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی مسلمان کے پڑوس میں کوئی یہودی یا کافر رہتا ہو تو اس کے ساتھ اس کا رویہ کیسا ہونا چاہیے۔ باب کے تحت مذکور روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمسایہ کافر ہو تب بھی اس کے ساتھ حسن سلوک کرنا فرض ہے۔ تفصیل حدیث نمبر ۱۰۵ کے تحت گزر چکی ہے۔ (۲) استاذ یا کسی بڑے شخص کا عمل درست معلوم نہ ہو تو اس پر تنقید کرنا درست ہے، تاہم انداز سائشہ ہونا چاہیے، نیز ادب کو بھی ملحوظ رکھا جائے کیونکہ ممکن ہے اعتراض کرنے والے کی بات درست نہ ہو اور اس کے پاس اپنے عمل کے جواز کی دلیل موجود ہو۔
تخریج : صحیح:أخرجه أبي داود، الأدب، باب في حق الجوار:۵۱۵۲۔ والترمذي:۱۹۴۳۔ وأحمد:۶۴۹۶۔ والحمیدي:۶۰۴۔ وابن ابي الدنیا في مکارم الاخلاق:۳۲۱۔ وابن شیبة:۲۵۴۱۷۔ والمروزي في البر والصلة:۲۱۶۔ والبیهقي في شعب الایمان:۹۵۶۵۔ وفي الأداب:۸۷۔ الارواء:۸۹۱۔ (۱)باب کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی مسلمان کے پڑوس میں کوئی یہودی یا کافر رہتا ہو تو اس کے ساتھ اس کا رویہ کیسا ہونا چاہیے۔ باب کے تحت مذکور روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمسایہ کافر ہو تب بھی اس کے ساتھ حسن سلوک کرنا فرض ہے۔ تفصیل حدیث نمبر ۱۰۵ کے تحت گزر چکی ہے۔ (۲) استاذ یا کسی بڑے شخص کا عمل درست معلوم نہ ہو تو اس پر تنقید کرنا درست ہے، تاہم انداز سائشہ ہونا چاہیے، نیز ادب کو بھی ملحوظ رکھا جائے کیونکہ ممکن ہے اعتراض کرنے والے کی بات درست نہ ہو اور اس کے پاس اپنے عمل کے جواز کی دلیل موجود ہو۔