الادب المفرد - حدیث 1266

كِتَابُ بَابُ الْغِنَاءِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَّامٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا الْفَزَارِيُّ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ، قَالَا: أَخْبَرَنَا قِنَانُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ النَّهْمِيُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْسَجَةَ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((أَفْشُوا السَّلَامَ تَسْلَمُوا، وَالْأَشَرَةُ شَرٌّ)) قَالَ أَبُو مُعَاوِيَةَ: الْأَشَرَةُ: الْعَبَثُ

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 1266

کتاب گانا بجانے کا بیان براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’سلام کو پھیلاؤ، سلامت رہو گے، بے فائدہ کھیل اور شیخی بگھارنا بری چیز ہے۔‘‘ ابو معاویہ کہتے ہیں:اشرۃ سے مراد بے فائدہ کھیل تماشا ہے۔
تشریح : (۱)گانا بجانا شیطانی امر ہے۔ اس سے انسان غفلت کا شکار ہو جاتا ہے اور ایسا مشغلہ اختیار کرنے والے اللہ کی راہ سے ہٹے ہوئے لوگ ہوتے ہیں جو قرآن سننے سے بھی عاری ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے درد ناک عذاب کی وعید ہے۔ (۲) موسیقی کو روح کی غذا کہنے والے اور اسے دلی تسکین کا ذریعہ قرار دینے والے انسانوں کے روپ میں شیاطین ہیں۔ کیونکہ ایمان والوں کی روح کو ذکر الٰہی اور قرآن سے سکون ملتا ہے۔ (۳) گانا بجانا فحاشی کی راہ کھولتا ہے، اس سے جذبات برانگیختہ ہوتے ہیں اور یہ گانے ہی لوگوں کو بدکاری کی طرف لے جاتے ہیں۔
تخریج : حسن:أخرجه أحمد:۱۸۵۳۰۔ وأبي یعلیٰ:۱۶۸۳۔ وابن حبان:۴۹۱۔ (۱)گانا بجانا شیطانی امر ہے۔ اس سے انسان غفلت کا شکار ہو جاتا ہے اور ایسا مشغلہ اختیار کرنے والے اللہ کی راہ سے ہٹے ہوئے لوگ ہوتے ہیں جو قرآن سننے سے بھی عاری ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے درد ناک عذاب کی وعید ہے۔ (۲) موسیقی کو روح کی غذا کہنے والے اور اسے دلی تسکین کا ذریعہ قرار دینے والے انسانوں کے روپ میں شیاطین ہیں۔ کیونکہ ایمان والوں کی روح کو ذکر الٰہی اور قرآن سے سکون ملتا ہے۔ (۳) گانا بجانا فحاشی کی راہ کھولتا ہے، اس سے جذبات برانگیختہ ہوتے ہیں اور یہ گانے ہی لوگوں کو بدکاری کی طرف لے جاتے ہیں۔