الادب المفرد - حدیث 124

كِتَابُ بَابُ شِكَايَةِ الْجَارِ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِي جَارًا يُؤْذِينِي، فَقَالَ: ((انْطَلِقْ فَأَخْرِجْ مَتَاعَكَ إِلَى الطَّرِيقِ)) ، فَانْطَلَقَ فَأَخْرِجَ مَتَاعَهُ، فَاجْتَمَعَ النَّاسُ عَلَيْهِ، فَقَالُوا: مَا شَأْنُكَ؟ قَالَ: لِي جَارٌ يُؤْذِينِي، فَذَكَرْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: ((انْطَلِقْ فَأَخْرِجْ مَتَاعَكَ إِلَى الطَّرِيقِ)) ، فَجَعَلُوا يَقُولُونَ: اللَّهُمَّ الْعَنْهُ، اللَّهُمَّ أَخْزِهِ. فَبَلَغَهُ، فَأَتَاهُ فَقَالَ: ارْجِعْ إِلَى مَنْزِلِكَ، فَوَاللَّهِ لَا أُؤْذِيكَ

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 124

کتاب ہمسائے کی شکایت کرنے کا بیان حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا:اللہ کے رسول! میرا ایک پڑوسی ہے جو مجھے ایذا دیتا ہے۔ آپ نے فرمایا:’’جاؤ، اپنا سامان (گھر سے)نکال کر راستے پر رکھ دو۔‘‘ وہ گیا اور اپنا سامان نکال کر راستے پر رکھ دیا۔ لوگ اس کے پاس آئے اور پوچھا:تجھے کیا ہوا؟ اس نے کہا:میرا پڑوسی مجھے تکلیف دیتا ہے۔ میں نے یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کی تو آپ نے مجھے حکم دیا کہ ’’جاؤ اور اپنا سامان (گھر سے)نکال کر راستے پر رکھ دو۔‘‘ (لوگوں نے یہ سنا)تو کہنے لگے:اللہ اس پر لعنت کرے، اللہ اسے رسوا کرے۔ یہ بات جب ہمسائے تک پہنچی تو وہ اس کے پاس آیا اور کہا:اپنے گھر میں لوٹ آؤ، اللہ کی قسم میں تمہیں کبھی تکلیف نہیں دو گا۔
تشریح : (۱)ظالم کی غیبت کرنا اور اسے بدنام کرنا جائز ہے تاکہ لوگ اس سے نفرت کریں اسی طرح حاکم وقت کو اس کی شکایت کرنا اور اس کے متعلق آگاہ کرنا جائز ہے۔ (۲) کوئی شخص اگر شرعی نصوص کی پروا نہ کرے تو اس کے خلاف احتجاج کا کوئی موثر طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے۔ ظلم اور ظالم کے خلاف آواز بلند کرنا اور اس سے خلاصی پانے کا کوئی بھی جائز طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حکومت اگر انصاف نہ کرے تو اس کے خلاف بھی مظاہرے کیے جاسکتے ہیں، تاہم سرکاری املاک کی توڑ پھوڑ اور گاڑیوں کو نذر آتش کرکے تباہی پھیلانا کسی صورت جائز نہیں۔ احتجاج کا مقصد ظلم سے نجات حاصل کرنا ہے نہ کہ معاشرے میں انارکی پھیلانا۔ (۳) ظالم کے خلاف اجتماعی طور پر رد عمل ظاہر کرنا چاہیے تاکہ اسے خجالت اور شرمندگی ہو اور وہ اپنے رویے سے باز آجائے۔ (۴) ایسا ظالم جس کے ظلم کا چرچا ہو، اس پر معین طور پر لعنت کرنا جائز ہے، لعنت کے معنی پھٹکار اور اللہ کی رحمت سے دوری ہیں۔ لعنت اگر اللہ کی طرف سے ہو تو اس کے معنی ہیں کہ اللہ نے اسے اپنی رحمت سے دور کر دیا اور اس سے بڑھ کر محرومی کیا ہوسکتی ہے۔ اور مخلوق کی لعنت برا بھلا کہنا اور بدعا کرنا ہوتا ہے۔ (۵) نیکی اور تقوے کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے اور ظالم کی حوصلہ شکنی اور مظلوم کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
تخریج : حسن صحیح:أخرجه أبي داود، الأدب، باب في حق الجوار:۵۱۵۳۔ وابن حبان:۵۲۰۔ وأبي یعلى:۶۶۳۰۔ والحاکم:۴؍ ۱۶۰۔ والبیهقي في شعب الایمان:۹۵۴۷۔ صحیح الترغیب:۲۵۵۹۔ (۱)ظالم کی غیبت کرنا اور اسے بدنام کرنا جائز ہے تاکہ لوگ اس سے نفرت کریں اسی طرح حاکم وقت کو اس کی شکایت کرنا اور اس کے متعلق آگاہ کرنا جائز ہے۔ (۲) کوئی شخص اگر شرعی نصوص کی پروا نہ کرے تو اس کے خلاف احتجاج کا کوئی موثر طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے۔ ظلم اور ظالم کے خلاف آواز بلند کرنا اور اس سے خلاصی پانے کا کوئی بھی جائز طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حکومت اگر انصاف نہ کرے تو اس کے خلاف بھی مظاہرے کیے جاسکتے ہیں، تاہم سرکاری املاک کی توڑ پھوڑ اور گاڑیوں کو نذر آتش کرکے تباہی پھیلانا کسی صورت جائز نہیں۔ احتجاج کا مقصد ظلم سے نجات حاصل کرنا ہے نہ کہ معاشرے میں انارکی پھیلانا۔ (۳) ظالم کے خلاف اجتماعی طور پر رد عمل ظاہر کرنا چاہیے تاکہ اسے خجالت اور شرمندگی ہو اور وہ اپنے رویے سے باز آجائے۔ (۴) ایسا ظالم جس کے ظلم کا چرچا ہو، اس پر معین طور پر لعنت کرنا جائز ہے، لعنت کے معنی پھٹکار اور اللہ کی رحمت سے دوری ہیں۔ لعنت اگر اللہ کی طرف سے ہو تو اس کے معنی ہیں کہ اللہ نے اسے اپنی رحمت سے دور کر دیا اور اس سے بڑھ کر محرومی کیا ہوسکتی ہے۔ اور مخلوق کی لعنت برا بھلا کہنا اور بدعا کرنا ہوتا ہے۔ (۵) نیکی اور تقوے کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے اور ظالم کی حوصلہ شکنی اور مظلوم کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔