كِتَابُ بَابُ الْقَائِلَةِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنِ السَّائِبِ، عَنْ عُمَرَ قَالَ: رُبَّمَا قَعَدَ عَلَى بَابِ ابْنِ مَسْعُودٍ رِجَالٌ مِنْ قُرَيْشٍ، فَإِذَا فَاءَ الْفَيْءُ قَالَ: قُومُوا فَمَا بَقِيَ فَهُوَ لِلشَّيْطَانِ، ثُمَّ لَا يَمُرُّ عَلَى أَحَدٍ إِلَّا أَقَامَهُ، قَالَ: ثُمَّ بَيْنَا هُوَ كَذَلِكَ إِذْ قِيلَ: هَذَا مَوْلَى بَنِي الْحَسْحَاسِ يَقُولُ الشِّعْرَ، فَدَعَاهُ فَقَالَ: كَيْفَ قُلْتَ؟ فَقَالَ: [البحر الطويل] وَدِّعْ سُلَيْمَى إِنْ تَجَهَّزْتَ غَازِيَا ... كَفَى الشَّيْبُ وَالْإِسْلَامُ لِلْمَرْءِ نَاهِيَا، فَقَالَ: حَسْبُكَ، صَدَقْتَ صَدَقْتَ
کتاب
دوپہر کو آرام کرنے کا بیان
سائب بن یزید رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بسا اوقات قریش کے کچھ لوگ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے دروازے پر آبیٹھتے (تاکہ کچھ سیکھیں)جب سایہ ڈھل جاتا تو فرماتے:اٹھو، اب جو وقت باقی بچا ہے وہ شیطان کے لیے ہے، پھر جس کے پاس سے گزرتے اسے سختی سے اٹھاتے۔ پھر اسی طرح وہ اٹھا رہے تھے کہ ان سے کہا گیا کہ یہ بنو حسحاس کا غلام ہے جو شعر کہتا ہے۔ انہوں نے اسے بلایا اور پوچھا:تونے کیا شعر کہا ہے؟ اس نے کہا:اگر تونے صبح صبح سفر کا ارادہ کرلیا ہے تو سلیمی کو چھوڑ دے کیونکہ بڑھاپا اور دین اسلام انسان کو برائی سے روکنے کے لیے کافي ہیں۔ انہوں نے فرمایا:بس کافي ہیں تونے سچ کہا ہے، تونے سچ کہا۔
تشریح :
(۱)اس سے معلوم ہوا کہ دوپہر کو قیلولہ ضرور کرنا چاہیے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے قیلولہ کیا کرو، کیونکہ شیطان قیلولہ نہیں کرتا۔ (الصحیحة:۱۶۴۷)
(۲) قیلولے کے لیے سونا ضروری نہیں، صرف آرام بھی کفایت کر جاتا ہے۔
(۳) شعر کا مطلب یہ ہے کہ انسان مسلمان ہو اور پھر بڑھاپا بھی آجائے تو گناہ کرنا کسی طرح زیب نہیں دیتا۔ گناہ تو زندگی کے ہر حصے میں گناہ ہی ہوتا ہے لیکن بال سفید ہو جائیں تو انسان کو معصیت کا راستہ اختیار کرتے بھی شرم کرنی چاہیے۔
تخریج :
حسن:أخرجه معمر في جامعه:۲۰۵۰۸۔
(۱)اس سے معلوم ہوا کہ دوپہر کو قیلولہ ضرور کرنا چاہیے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے قیلولہ کیا کرو، کیونکہ شیطان قیلولہ نہیں کرتا۔ (الصحیحة:۱۶۴۷)
(۲) قیلولے کے لیے سونا ضروری نہیں، صرف آرام بھی کفایت کر جاتا ہے۔
(۳) شعر کا مطلب یہ ہے کہ انسان مسلمان ہو اور پھر بڑھاپا بھی آجائے تو گناہ کرنا کسی طرح زیب نہیں دیتا۔ گناہ تو زندگی کے ہر حصے میں گناہ ہی ہوتا ہے لیکن بال سفید ہو جائیں تو انسان کو معصیت کا راستہ اختیار کرتے بھی شرم کرنی چاہیے۔