الادب المفرد - حدیث 122

كِتَابُ بَابُ لَا تَحْقِرَنَّ جَارَةٌ لِجَارَتِهَا وَلَوْ فِرْسِنُ شَاةٍ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُعَاذٍ الْأَشْهَلِيِّ، عَنْ جَدَّتِهِ، أَنَّهَا قَالَتْ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((يَا نِسَاءَ الْمُؤْمِنَاتِ، لَا تَحْقِرَنَّ امْرَأَةٌ مِنْكُنَّ لِجَارَتِهَا، وَلَوْ كُرَاعُ شَاةٍ مُحَرَّقٍ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 122

کتاب کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کے ہدیے کو حقیر نہ سمجھے خواہ وہ بکری کا کھر ہی ہو۔ عمرو بن معاذ اشہلی اپنی دادی (حواء بنت یزید) رضی اللہ عنہا سے بیان کرتے ہیں کہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اے مومن عورتو! تم میں سے کوئی عورت اپنی پڑوسن کے لیے ہدیے کو حقیر نہ سمجھے خواہ وہ بکری کا جلا ہوا پایہ ہی ہو۔‘‘
تشریح : (۱)کراع سے مراد گھٹنے سے لے کر پاؤں تک کا حصہ ہے۔ اس پر گوشت بہت کم ہوتا ہے اور عموماً یہ بطور تحفہ نہیں دیا جاتا تھا کیونکہ بہت معمولی خیال کیا جاتا تھا، پھر جو لوگ اونٹوں کو ذبح کرنے والے تھے ان کے نزدیک بکری کے کُھر کی کیا حیثیت ہوگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ترغیب دلائی کہ تحائف کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے خواہ معمولی چیز ہی ایک دوسرے کو دی جائے اور ہدیہ وصول کرنے والے کو ہدیے اور تحفے کی بجائے صاحب ہدیہ کے جذبات کو دیکھنا چاہیے۔ (۲) عورتوں کو خصوصی طور پر مخاطب اس لیے کیا کہ ایک تو اس طرح کے امور عموماً عورتوں ہی کے ذمے ہوتے ہیں، کھانے پکانے کی ذمہ داری انہی کے سپرد ہوتی ہے، ہدیہ قبول کرنا یا رد کرنا انہی کے سپرد ہوتا ہے۔ وہ بہت جلد رد عمل ظاہر کر دیتی ہیں۔ اس لیے انہیں باہمی مودت کی فضا پیدا کرنے کی ترغیب ہے اور حکم دیا ہے کہ معمولی چیز بھی ہدیہ کرنے میں عار محسوس نہ کرو اسی طرح اگر کوئی معمولی چیز تحفے کے طور پر دیتا ہے تو اسے بھی دل کی خوشی سے قبول کرو۔ نہ معلوم دینے والا کتنے جذبات کے ساتھ کتنے لوگوں کو چھوڑ کر آپ کو دے رہا ہو۔ (۳) علماء کو چاہیے کہ جو امور خصوصی طور پر عورتوں سے متعلق ہیں انہیں ان کے بارے میں وعظ و نصیحت کرتے رہیں کیونکہ اس سے مومنوں کو فائدہ ہوتا ہے۔ (۴) اس حدیث میں تبادلہ تحائف کی ترغیب ہے کیونکہ اس سے محبت بڑھتی ہے اور معاشرے کا ماحول پرسکون ہو جاتا ہے، نیز گزران زندگی آسان ہو جاتی ہے۔
تخریج : صحیح:أخرجه مالك:۲؍ ۹۳۱۔ وأحمد:۱۶۶۱۱۔ والدارمي :۱۷۱۴۔ وابن أبی عاصم في الآحاد:۳۳۹۰۔ والبیهقي في شعب الایمان:۳۴۶۲۔ والطبراني في الکبیر:۲۴؍ ۲۲۰۔ (۱)کراع سے مراد گھٹنے سے لے کر پاؤں تک کا حصہ ہے۔ اس پر گوشت بہت کم ہوتا ہے اور عموماً یہ بطور تحفہ نہیں دیا جاتا تھا کیونکہ بہت معمولی خیال کیا جاتا تھا، پھر جو لوگ اونٹوں کو ذبح کرنے والے تھے ان کے نزدیک بکری کے کُھر کی کیا حیثیت ہوگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ترغیب دلائی کہ تحائف کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے خواہ معمولی چیز ہی ایک دوسرے کو دی جائے اور ہدیہ وصول کرنے والے کو ہدیے اور تحفے کی بجائے صاحب ہدیہ کے جذبات کو دیکھنا چاہیے۔ (۲) عورتوں کو خصوصی طور پر مخاطب اس لیے کیا کہ ایک تو اس طرح کے امور عموماً عورتوں ہی کے ذمے ہوتے ہیں، کھانے پکانے کی ذمہ داری انہی کے سپرد ہوتی ہے، ہدیہ قبول کرنا یا رد کرنا انہی کے سپرد ہوتا ہے۔ وہ بہت جلد رد عمل ظاہر کر دیتی ہیں۔ اس لیے انہیں باہمی مودت کی فضا پیدا کرنے کی ترغیب ہے اور حکم دیا ہے کہ معمولی چیز بھی ہدیہ کرنے میں عار محسوس نہ کرو اسی طرح اگر کوئی معمولی چیز تحفے کے طور پر دیتا ہے تو اسے بھی دل کی خوشی سے قبول کرو۔ نہ معلوم دینے والا کتنے جذبات کے ساتھ کتنے لوگوں کو چھوڑ کر آپ کو دے رہا ہو۔ (۳) علماء کو چاہیے کہ جو امور خصوصی طور پر عورتوں سے متعلق ہیں انہیں ان کے بارے میں وعظ و نصیحت کرتے رہیں کیونکہ اس سے مومنوں کو فائدہ ہوتا ہے۔ (۴) اس حدیث میں تبادلہ تحائف کی ترغیب ہے کیونکہ اس سے محبت بڑھتی ہے اور معاشرے کا ماحول پرسکون ہو جاتا ہے، نیز گزران زندگی آسان ہو جاتی ہے۔