كِتَابُ بَابُ جَزَاءِ الْوَالِدَيْنِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ قَالَ: حَدَّثَنِي خَالِدُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي مُرَّةَ مَوْلَى عَقِيلٍ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ كَانَ يَسْتَخْلِفُهُ مَرْوَانُ، وَكَانَ يَكُونُ بِذِي الْحُلَيْفَةِ، فَكَانَتْ أُمُّهُ فِي بَيْتٍ وَهُوَ فِي آخَرَ. قَالَ: فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَخْرُجَ وَقَفَ عَلَى بَابِهَا فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكِ يَا أُمَّتَاهُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، فَتَقُولُ: وَعَلَيْكَ السَّلَامُ يَا بُنَيَّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، فَيَقُولُ: رَحِمَكِ اللَّهُ كَمَا رَبَّيْتِنِي صَغِيرًا، فَتَقُولُ: رَحِمَكَ اللَّهُ كَمَا بَرَرْتَنِي كَبِيرًا، ثُمَّ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَدْخُلَ صَنَعَ مِثْلَهُ
کتاب
والدین کے احسان کا بدلہ دینے کا بیان
عقیل رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام ابومرہکہتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو مروان اپنا نائب بنایا کرتا تھا اور وہ ذوالحلیفہ میں رہتے تھے اور ان کی والدہ ایک گھر میں رہتی تھی اور وہ خود دوسرے گھر میں رہتے تھے۔ ابو مرہ کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جب کہیں جانے کا ارادہ فرماتے تو اپنی والدہ کے (گھر کے)دروازے پر کھڑے ہوکر فرماتے: اے اماں جان تجھ پر سلامتی ہو اور اللہ کی رحمت اور برکتیں ہوں، تو ان کی والدہ جواب میں فرماتیں: اور تجھ پر سلامتی اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں۔ وہ (ابوہریرہ)فرماتے: اللہ آپ پر رحم فرمائے جیسے آپ نے بچپن میں میری پرورش کی، تو جواباً فرماتیں: اللہ تجھ پر بھی رحم فرمائے جس طرح تونے بڑے ہوکر میرے ساتھ حسن سلوک کیا۔ اور جب واپس تشریف لاتے تو پھر اسی طرح کرتے۔
تشریح :
(۱)یہ حدیث ضعیف ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے سعید بن ابو ہلال کے اختلاط کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے۔ تاہم کسی مہم پر جانے سے پہلے بزرگوں سے ملنا اور ان کی دعائیں لینا مستحسن عمل ہے جیسا کہ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی کعب بن اشرف کو قتل کرنے کے لیے جانے سے پہلے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور آپ نے انہیں دعا دے کر رخصت فرمایا تھا۔
تخریج :
ضعیف: أخرجه ابن وهب فی الجامع: ۱۵۱۔ والمروزي فی البر والصلة: ۳۷۔ وابن أبي الدنیا فی مکارم الاخلاق: ۲۲۸۔
(۱)یہ حدیث ضعیف ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے سعید بن ابو ہلال کے اختلاط کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے۔ تاہم کسی مہم پر جانے سے پہلے بزرگوں سے ملنا اور ان کی دعائیں لینا مستحسن عمل ہے جیسا کہ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی کعب بن اشرف کو قتل کرنے کے لیے جانے سے پہلے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور آپ نے انہیں دعا دے کر رخصت فرمایا تھا۔