الادب المفرد - حدیث 1198

كِتَابُ بَابُ: هَلْ يُقَدِّمُ الرَّجُلُ رِجْلَهُ بَيْنَ أَيْدِي أَصْحَابِهِ، وَهَلْ يَتَّكِئُ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ؟ حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْعَصَرِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا شِهَابُ بْنُ عَبَّادٍ الْعَصَرِيُّ، أَنَّ بَعْضَ وَفْدِ عَبْدِ الْقَيْسِ سَمِعَهُ يَذْكُرُ، قَالَ: لَمَّا بَدَأْنَا فِي وِفَادَتِنَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِرْنَا، حَتَّى إِذَا شَارَفْنَا الْقُدُومَ تَلَقَّانَا رَجُلٌ يُوضِعُ عَلَى قَعُودٍ لَهُ، فَسَلَّمَ، فَرَدَدْنَا عَلَيْهِ، ثُمَّ وَقَفَ فَقَالَ: مِمَّنِ الْقَوْمُ؟ قُلْنَا: وَفْدُ عَبْدِ الْقَيْسِ، قَالَ: مَرْحَبًا بِكُمْ وَأَهْلًا، إِيَّاكُمْ طَلَبْتُ، جِئْتُ لِأُبَشِّرَكُمْ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْأَمْسِ لَنَا: إِنَّهُ نَظَرَ إِلَى الْمَشْرِقِ فَقَالَ: " لَيَأْتِيَنَّ غَدًا مَنْ هَذَا الْوَجْهِ - يَعْنِي: الْمَشْرِقَ - خَيْرُ وَفْدِ الْعَرَبِ "، فَبَتُّ أَرُوغُ حَتَّى أَصْبَحْتُ، فَشَدَدْتُ عَلَى رَاحِلَتِي، فَأَمْعَنْتُ فِي الْمَسِيرِ حَتَّى ارْتَفَعَ النَّهَارُ، وَهَمَمْتُ بِالرُّجُوعِ، ثُمَّ رُفِعَتْ رُءُوسُ رَوَاحِلِكُمْ، ثُمَّ ثَنَى رَاحِلَتَهُ بِزِمَامِهَا رَاجِعًا يُوضِعُ عَوْدَهُ عَلَى بَدْئِهِ، حَتَّى انْتَهَى إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَأَصْحَابُهُ حَوْلَهُ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ، فَقَالَ: بِأَبِي [ص:410] وَأُمِّي، جِئْتُ أُبَشِّرُكَ بِوَفْدِ عَبْدِ الْقَيْسِ، فَقَالَ: ((أَنَّى لَكَ بِهِمْ يَا عُمَرُ؟)) قَالَ: هُمْ أُولَاءِ عَلَى أَثَرِي، قَدْ أَظَلُّوا، فَذَكَرَ ذَلِكَ، فَقَالَ: ((بَشَّرَكَ اللَّهُ بِخَيْرٍ)) ، وَتَهَيَّأَ الْقَوْمُ فِي مَقَاعِدِهِمْ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاعِدًا، فَأَلْقَى ذَيْلَ رِدَائِهِ تَحْتَ يَدِهِ فَاتَّكَأَ عَلَيْهِ، وَبَسَطَ رِجْلَيْهِ. فَقَدِمَ الْوَفْدُ فَفَرِحَ بِهِمُ الْمُهَاجِرُونَ وَالْأَنْصَارُ، فَلَمَّا رَأَوُا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابَهُ أَمْرَحُوا رِكَابَهُمْ فَرَحًا بِهِمْ، وَأَقْبَلُوا سِرَاعًا، فَأَوْسَعَ الْقَوْمُ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَّكِئٌ عَلَى حَالِهِ، فَتَخَلَّفَ الْأَشَجُّ - وَهُوَ: مُنْذِرُ بْنُ عَائِذِ بْنِ مُنْذِرِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ النُّعْمَانِ بْنِ زِيَادِ بْنِ عَصَرَ - فَجَمَعَ رِكَابَهُمْ ثُمَّ أَنَاخَهَا، وَحَطَّ أَحْمَالَهَا، وَجَمَعَ مَتَاعَهَا، ثُمَّ أَخْرَجَ عَيْبَةً لَهُ وَأَلْقَى عَنْهُ ثِيَابَ السَّفَرِ وَلَبِسَ حُلَّةً، ثُمَّ أَقْبَلَ يَمْشِي مُتَرَسِّلًا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((مَنْ سَيِّدُكُمْ وَزَعِيمُكُمْ، وَصَاحِبُ أَمْرِكُمْ؟)) فَأَشَارُوا بِأَجْمَعِهِمْ إِلَيْهِ، وَقَالَ: ((ابْنُ سَادَتِكُمْ هَذَا؟)) قَالُوا: كَانَ آبَاؤُهُ سَادَتَنَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَهُوَ قَائِدُنَا إِلَى الْإِسْلَامِ، فَلَمَّا انْتَهَى الْأَشَجُّ أَرَادَ أَنْ يَقْعُدَ مِنْ نَاحِيَةٍ، اسْتَوَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاعِدًا قَالَ: ((هَا هُنَا يَا أَشَجُّ)) ، وَكَانَ أَوَّلَ يَوْمٍ سُمِّيَ الْأَشَجَّ ذَلِكَ الْيَوْمَ، أَصَابَتْهُ حِمَارَةٌ بِحَافِرِهَا وَهُوَ فَطِيمٌ، فَكَانَ فِي وَجْهِهِ مِثْلُ الْقَمَرِ، فَأَقْعَدَهُ إِلَى جَنْبِهِ، وَأَلْطَفَهُ، وَعَرَفَ فَضْلَهُ عَلَيْهِمْ، فَأَقْبَلَ الْقَوْمُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُونَهُ وَيُخْبِرُهُمْ، حَتَّى كَانَ بِعَقِبِ الْحَدِيثِ قَالَ: ((هَلْ مَعَكُمْ مِنْ أَزْوِدَتِكُمْ شَيْءٌ؟)) قَالُوا: نَعَمْ، فَقَامُوا سِرَاعًا، كُلُّ رَجُلٍ مِنْهُمْ إِلَى ثِقَلِهِ فَجَاءُوا بِصُبَرِ التَّمْرِ فِي أَكُفِّهِمْ، فَوُضِعَتْ عَلَى نِطَعٍ بَيْنَ يَدَيْهِ، وَبَيْنَ يَدَيْهِ جَرِيدَةٌ دُونَ الذِّرَاعَيْنِ وَفَوْقَ الذِّرَاعِ، فَكَانَ يَخْتَصِرُ بِهَا، قَلَّمَا يُفَارِقُهَا، فَأَوْمَأَ بِهَا إِلَى صُبْرَةٍ مِنْ ذَلِكَ التَّمْرِ فَقَالَ: ((تُسَمُّونَ هَذَا التَّعْضُوضَ؟)) قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: ((وَتُسَمُّونَ هَذَا الصَّرَفَانَ؟)) قَالُوا: نَعَمْ، ((وَتُسَمُّونَ هَذَا الْبَرْنِيَّ؟)) ، قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: ((هُوَ خَيْرُ تَمْرِكُمْ وَأَنْفَعُهُ لَكُمْ - وَقَالَ بَعْضُ شُيُوخِ الْحَيِّ - وَأَعْظَمُهُ بَرَكَةً)) وَإِنَّمَا كَانَتْ عِنْدَنَا خَصِبَةٌ نَعْلِفُهَا إِبِلَنَا وَحَمِيرَنَا، فَلَمَّا رَجَعْنَا مِنْ وِفَادَتِنَا تِلْكَ عَظُمَتْ رَغْبَتُنَا فِيهَا، وَفَسَلْنَاهَا حَتَّى تَحَوَّلَتْ ثِمَارُنَا مِنْهَا، وَرَأَيْنَا الْبَرَكَةَ فِيهَا

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 1198

کتاب کیا آدمی اپنے ساتھیوں کے سامنے پاؤں پھیلا سکتا اور تکیہ لگا سکتا ہے شہاب بن عباد عصر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے وفد عبدالقیس کے بعض لوگوں کو بیان کرتے ہوئے سنا:جب ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جانے کا حتمی فیصلہ کرلیا اور ہمارا وفد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چل پڑا اور ہم پہنچنے کے قریب ہوئے تو ہمیں ایک آدمی ملا جو ایک سست رفتار اونٹنی تیزی سے دوڑا رہا تھا۔ اس نے سلام کہا تو ہم نے اس کے سلام کا جواب دیا۔ پھر وہ رکا اور اس نے کہا:تم کون لوگ ہو؟ ہم نے کہا:یہ عبدالقیس کا وفد ہے۔ اس نے کہا:خوش آمدید، میں تمہاری ہی تلاش میں تھا۔ میں تمہیں خوشخبری دینے کے لیے آیا ہوں۔ کل نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا جبکہ آپ مشرق کی طرف دیکھ رہے تھے:’’کل ضرور اس طرف سے، یعنی مشرق سے ایک وفد آئے گا اور وہ عرب کا بہترین وفد ہوگا۔‘‘ میں نے رات بے چینی سے گزاری اور صبح ہوتے ہی اپنی سواری پر کجاوا کس لیا۔ میں خوب تیز چلا یہاں تک کہ سورج طلوع ہوگیا، اب میں واپس جانے کا ارادہ کر ہی رہا تھا (کہ وہ وفد تو لیٹ آئے گا)کہ مجھے تمہاری سواریوں کے سر دور سے دکھائی دیے۔ پھر اس نے اپنی سواری کی ’’مہار موڑی‘‘ اور الٹے پاؤں اسے دوڑاتا ہوا واپس چلا گیا یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گیا۔ آپ انصار و مہاجرین کے جلو میں تشریف فرما تھے۔ اس نے کہا:میرے ماں باپ آپ پر قربان! میں آپ کو عبد قیس کے وفد کی آمد کی خوشخبری دینے آیا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اے عمر! وہ تمہیں کہاں مل گئے؟‘‘ انہوں نے کہا:وہ بس میرے پیچھے ہی آرہے ہیں، ابھی پہنچے۔ اس نے جب یہ بات بتائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اللہ تجھے بھی اچھی خوشخبری دے۔ صحابہ اپنی اپنی جگہ پر ٹھیک طرح سے بیٹھ گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے۔ آپ نے اپنی چادر کے دامن کو اپنے ہاتھ کے نیچے رکھا اور اس کی ٹیک لگا کر دونوں ٹانگیں پھیلا لیں۔ چنانچہ جب وفد آیا تو اس پر مہاجرین و انصار بڑے خوش ہوئے۔ جب وفد والوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو دیکھا تو اس خوشی میں اپنی سواریوں کو کھلا چھوڑ کر جلدی سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ صحابہ کرام نے مجلس وسیع کر دی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سابقہ کیفیت ہی میں تشریف فرما رہے۔ اشج رضی اللہ عنہ پیچھے رہ گئے، اور ان کا نام منذر بن عائذ بن منذر بن حارث بن نعمان بن زیاد بن عصر تھا، انہوں نے سب کی سواریوں کو جمع کیا، انہیں بٹھایا، ان کا بوجھ اتارا اور سامان اکٹھا کیا، پھر اپنا تھیلا نکالا اور سفر کے کپڑے اتارے اور حلہ (نیا جوڑا)پہن لیا اور آرام سے چلتا ہوا آیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تمہارا سردار، رئیس اور صاحب اختیار کون ہے؟‘‘ سب لوگوں نے اس (اشج)کی طرف اشارہ کیا۔ آپ نے پوچھا:’’تمہارے سرداروں کی اولاد سے ہے؟‘‘ لوگوں نے کہا:اس کے آباؤ اجداد جاہلیت میں ہمارے سردار تھے۔ اور یہ اب ہمارا سردار ہے جو ہمیں اسلام کی طرف لے آیا ہے۔ جب اشج رضی اللہ عنہ پہنچے تو انہوں نے ایک طرف بیٹھنے کا ارادہ کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سیدھے ہوکر بیٹھ گئے اور فرمایا:’’اشج ادھر آجاؤ۔‘‘ یہ پہلا دن تھا جب انہیں اشج کے لقب سے پکارا گیا۔ اس کی وجہ یہ بنی کہ بچپن میں انہیں گدھی نے کھر مارا تھا اور ان کے چہرے پر چاند کی مثل نشان تھا۔ آپ نے انہیں اپنے پہلو میں بٹھایا اور بڑی شفقت سے گفتگو فرمائی۔ اور ان کی قوم پر ان کی جو فضیلت تھی آپ نے اسے جان لیا۔ پھر لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مسائل دریافت کرنے لگے اور آپ جواب دینے لگے۔ گفتگو کے اختتام پر آپ نے فرمایا:’’کیا تمہارے پاس زاد سفر ہے؟‘‘ انہوں نے کہا:جی ہاں اور جلدی سے اٹھے اور ہر شخص اپنے سامان سے تھوڑی تھوڑی کھجوریں لے آیا جس سے کھجوروں کا ایک ڈھیر لگ گیا۔ چنانچہ وہ چمڑے کے ایک دستر خوان پر آپ کے سامنے رکھ دی گئیں اور آپ کے پاس دو ہاتھوں سے کم اور ایک ہاتھ سے بڑی چھڑی تھی۔ آپ اس سے ٹیک لگاتے تھے اور اکثر اسے پاس ہی رکھتے تھے۔ آپ نے اس چھڑی سے کھجوروں کے ڈھیر کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا:تم ان کو تعضوض کہتے ہو؟ انہوں نے کہا:ہاں۔ آپ نے فرمایا:’’تم ان کو صرفان بھی کہتے ہو؟‘‘ انہوں نے کہا:جی ہاں! آپ نے فرمایا:’’تم ان کو برنی کہتے ہو؟‘‘ انہوں نے کہا:ہاں۔ آپ نے فرمایا:وہ تمہاری کھجوروں میں سب سے اچھی شمار ہوتی ہے اور پک کر بہت بہتر ہوتی ہے۔ قبیلے کے بعض بزرگوں نے یہ الفاظ بھی بیان کیے:’’اور یہ قسم برکت کے اعتبار سے بھی دوسروں سے بڑھ کر ہے۔‘‘ کھجوروں کی یہ قسم ہمارے ہاں سستی شمار ہوتی تھی جسے ہم اونٹوں اور گدھوں کو کھلایا کرتے تھے۔ جب ہم اپنے اس سفر سے واپس آئے تو برنی کھجوروں میں ہماری رغبت زیادہ ہوگئی اور ہم نے اس کے پودے لگائے یہاں تک کہ ہمارے پھل کھجور کی اسی قسم کے ہوگئے اور ہم نے ان میں برکت بھی دیکھی۔
تشریح : عبدالقیس کے وفد کی آمد صحیح احادیث سے ثابت ہے، تاہم اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ کیونکہ اس میں یحییٰ بن عبدالرحمن عصری راوی غیر معروف ہے۔ صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشج رضی اللہ عنہ سے فرمایا:’’تیرے اندر دو خوبیاں ہیں جو اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہیں۔ حلم وبردباری اور طبیعت میں ٹھہراؤ۔‘‘ اسی طرح برنی کھجوروں کے حوالے سے وارد الفاظ بھی صحیح ہیں۔ (الصحیحة للألباني، ح:۱۸۴۴)
تخریج : ضعیف:أخرجه أحمد:۱۵۵۵۹۔ والطبراني في ا لکبیر:۲۰؍ ۳۴۵۔ وأبي یعلیٰ:۶۸۱۵۔ عبدالقیس کے وفد کی آمد صحیح احادیث سے ثابت ہے، تاہم اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ کیونکہ اس میں یحییٰ بن عبدالرحمن عصری راوی غیر معروف ہے۔ صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشج رضی اللہ عنہ سے فرمایا:’’تیرے اندر دو خوبیاں ہیں جو اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہیں۔ حلم وبردباری اور طبیعت میں ٹھہراؤ۔‘‘ اسی طرح برنی کھجوروں کے حوالے سے وارد الفاظ بھی صحیح ہیں۔ (الصحیحة للألباني، ح:۱۸۴۴)