الادب المفرد - حدیث 119

كِتَابُ بَابُ لَا يُؤْذِي جَارَهُ حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو يَحْيَى مَوْلَى جَعْدَةَ بْنِ هُبَيْرَةَ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: قِيلَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ فُلَانَةً تَقُومُ اللَّيْلَ وَتَصُومُ النَّهَارَ، وَتَفْعَلُ، وَتَصَّدَّقُ، وَتُؤْذِي جِيرَانَهَا بِلِسَانِهَا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((لَا خَيْرَ فِيهَا، هِيَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ)) ، قَالُوا: وَفُلَانَةٌ تُصَلِّي الْمَكْتُوبَةَ، وَتَصَّدَّقُ بِأَثْوَارٍ، وَلَا تُؤْذِي أَحَدًا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((هِيَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 119

کتاب (کوئی شخص)اپنے ہمسائے کو اذیت نہ پہنچائے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی گئی:’’اے اللہ کے رسول! فلاں خاتون رات کو قیام کرتی ہے اور دن کو روزہ رکھتی ہے اور نیکی کے دیگر کام کرتی ہے اور صدقہ و خیرات بھی کرتی ہے لیکن اپنی زبان سے ہمسایوں کو تکلیف پہنچاتی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ سن کر)فرمایا:’’اس میں کوئی خیر نہیں، وہ دوزخی ہے۔‘‘ انہوں (صحابہ)نے کہا:اور فلاں عورت (صرف)فرض نماز ادا کرتی ہے اور پنیر کے چند ٹکڑے صدقہ کر دیتی ہے لیکن کسی کو ایذا نہیں پہنچاتی؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’یہ جنتی عورتوں میں سے ہے۔‘‘
تشریح : (۱)اس حدیث سے حقوق العباد کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ ان کا اہتمام کس قدر اہم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھائی کا معیار یہ بتایا کہ حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد بھی ادا کیے جائیں۔ اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے حقوق کا پابند ہے لیکن بندوں کو ایذا دیتا ہے، بالخصوص ہمسائے اس سے تنگ ہیں تو ایسے شخص کے نماز، روزوں اور صدقات سے دھوکا مت کھاؤ۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ کوئی دین داری نہیں کہ ایک طرف ایسا کام جسے چھوڑنا مباح ہے اس کا التزام کیا جائے اور جسے چھوڑنا ضروری اور فرض ہو اس کا ارتکاب کیا جائے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ حرام کما کر صدقہ و خیرات کیا جائے۔ ایسا شخص بے شک بظاہر دین دار ہے لیکن خیر سے خالی ہے۔ (۲) ہمسایوں کو ایذا دینا اور انہیں تنگ کرنا کبیرہ گناہ ہے جو دوزخ میں جانے کا باعث ہے لیکن افسوس کہ اس میں لوگوں کی اکثریت ملوث ہے ایک دوسری حدیث میں ایسے نمازیوں کو، جو لوگوں کو ایذا دیتے ہیں اور حقوق العباد کو پامال کرتے ہیں، اس امت کا مفلس (کنگال)قرار دیا گیا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((’’أتَدْرُوْنَ مَا الْمُفْلِسُ؟‘‘ قَالُوا الْمُفْلِسُ فِیْنَا مَنْ لَا دِرْهَمَ لَهٗ وَلَا مَتَاعَ فَقَالَ:’’إِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ أمَّتِي مَنْ یَأتِي یَوْمَ الْقِیَامَةِ بِصَلَاةٍ وَ صِیَامٍ وَزَکَاۃٍ وَیَأتِی قَدْ شَتَمَ هَذَا، وَقَذفَ هَذَا وَأکَلَ مَالَ هَذَا وَسَفَكَ دَمَ ہَذَا وَضَرَبَ ہَذَا، فیُعْطٰی هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ فَاِن فَنِیَتْ حَسَنَاتَهُ قَبْلَ أنْ یُقضٰی مَا عَلَیْهِ أخِذَ مِنْ خَطَایَاهُمْ فَطُرِحَتْ عَلَیْهِ ثُمَّ طُرِحَ فِي النَّارِ۔‘‘ (صحیح مسلم، البر والصلة، باب تحریم الظلم، حدیث:۲۵۸۱) ’’تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟‘‘ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی:ہم تو مفلس اسے کہتے ہیں جس کے پاس درہم و دینار اور مال و متاع نہ ہو۔ آپ نے فرمایا:’’بلاشبہ میری امت کا مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز، روزے اور زکاۃ لے کر آئے گا لیکن کسی کو گالی گلوچ کی ہوگی، کسی پر بہتان لگایا ہوگا، کسی کا مال کھایا ہوگا اور کسی کو مارا ہوگا۔ پھر اس کی نیکیوں میں سے کچھ اس کو دے دی جائیں گی کچھ اس (دوسرے مظلوم)کو چنانچہ اگر اس کی نیکیاں حساب پورا ہونے سے پہلے ختم ہوگئیں تو ان (مظلوموں)کے گناہ لے کر اس پر ڈال دیے جائیں گے اور پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔‘‘ ایک دوسری حدیث میں تو حقیقی مسلمان کہا ہی اسے گیا ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔ (بخاري:۱۰) (۳) اللہ تعالیٰ کے احکامات کی دو اقسام ہیں:(۱)مأمورات (جن کے کرنے کا حکم ہے)(۲)منہیات (جن سے باز رہنے کا حکم ہے)مأمورات پر عمل اسی وقت سود مند ہوگا جب منہیات سے رکا جائے ورنہ طاعت کے کام بھی منہیات کے ارتکاب سے ضائع ہو جائیں گے جیسا کے حدیث سے ظاہر ہے۔ (۴) دوسری عورت جسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنتی قرار دیا وہ اگرچہ اول الذکر عورت سے مأمورات پر عمل کرنے میں کم درجہ تھی کہ صرف فرائض کا اہتمام کرتی تھی لیکن منہیات کا ارتکاب نہیں کرتی تھی۔ معلوم ہوا حصول جنت کے لیے ضروری ہے کہ منہیات سے اجتناب کیا جائے۔ اللہ کے بندوں بالخصوص پڑوسیوں کو ایذا نہ دی جائے ورنہ نیکیاں برباد ہو جائیں گی۔ ایک حدیث کی رو سے کسی کو ایذا دینے سے باز رہنا بھی نیکی ہے۔
تخریج : صحیح:الصحیحة:۱۹۰۔ أخرجه أحمد:۹۶۷۵۔ وابن وهب في الجامع:۳۱۵۔ والمروزي في البر والصلة:۲۴۲۔ واسحق بن راهویه في سندہ:۲۹۳۔ والحاکم:۴؍ ۱۶۶۔ والبیهقي في شعب الایمان:۹۵۴۵۔ (۱)اس حدیث سے حقوق العباد کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ ان کا اہتمام کس قدر اہم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھائی کا معیار یہ بتایا کہ حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد بھی ادا کیے جائیں۔ اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے حقوق کا پابند ہے لیکن بندوں کو ایذا دیتا ہے، بالخصوص ہمسائے اس سے تنگ ہیں تو ایسے شخص کے نماز، روزوں اور صدقات سے دھوکا مت کھاؤ۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ کوئی دین داری نہیں کہ ایک طرف ایسا کام جسے چھوڑنا مباح ہے اس کا التزام کیا جائے اور جسے چھوڑنا ضروری اور فرض ہو اس کا ارتکاب کیا جائے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ حرام کما کر صدقہ و خیرات کیا جائے۔ ایسا شخص بے شک بظاہر دین دار ہے لیکن خیر سے خالی ہے۔ (۲) ہمسایوں کو ایذا دینا اور انہیں تنگ کرنا کبیرہ گناہ ہے جو دوزخ میں جانے کا باعث ہے لیکن افسوس کہ اس میں لوگوں کی اکثریت ملوث ہے ایک دوسری حدیث میں ایسے نمازیوں کو، جو لوگوں کو ایذا دیتے ہیں اور حقوق العباد کو پامال کرتے ہیں، اس امت کا مفلس (کنگال)قرار دیا گیا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((’’أتَدْرُوْنَ مَا الْمُفْلِسُ؟‘‘ قَالُوا الْمُفْلِسُ فِیْنَا مَنْ لَا دِرْهَمَ لَهٗ وَلَا مَتَاعَ فَقَالَ:’’إِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ أمَّتِي مَنْ یَأتِي یَوْمَ الْقِیَامَةِ بِصَلَاةٍ وَ صِیَامٍ وَزَکَاۃٍ وَیَأتِی قَدْ شَتَمَ هَذَا، وَقَذفَ هَذَا وَأکَلَ مَالَ هَذَا وَسَفَكَ دَمَ ہَذَا وَضَرَبَ ہَذَا، فیُعْطٰی هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ فَاِن فَنِیَتْ حَسَنَاتَهُ قَبْلَ أنْ یُقضٰی مَا عَلَیْهِ أخِذَ مِنْ خَطَایَاهُمْ فَطُرِحَتْ عَلَیْهِ ثُمَّ طُرِحَ فِي النَّارِ۔‘‘ (صحیح مسلم، البر والصلة، باب تحریم الظلم، حدیث:۲۵۸۱) ’’تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟‘‘ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی:ہم تو مفلس اسے کہتے ہیں جس کے پاس درہم و دینار اور مال و متاع نہ ہو۔ آپ نے فرمایا:’’بلاشبہ میری امت کا مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز، روزے اور زکاۃ لے کر آئے گا لیکن کسی کو گالی گلوچ کی ہوگی، کسی پر بہتان لگایا ہوگا، کسی کا مال کھایا ہوگا اور کسی کو مارا ہوگا۔ پھر اس کی نیکیوں میں سے کچھ اس کو دے دی جائیں گی کچھ اس (دوسرے مظلوم)کو چنانچہ اگر اس کی نیکیاں حساب پورا ہونے سے پہلے ختم ہوگئیں تو ان (مظلوموں)کے گناہ لے کر اس پر ڈال دیے جائیں گے اور پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔‘‘ ایک دوسری حدیث میں تو حقیقی مسلمان کہا ہی اسے گیا ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔ (بخاري:۱۰) (۳) اللہ تعالیٰ کے احکامات کی دو اقسام ہیں:(۱)مأمورات (جن کے کرنے کا حکم ہے)(۲)منہیات (جن سے باز رہنے کا حکم ہے)مأمورات پر عمل اسی وقت سود مند ہوگا جب منہیات سے رکا جائے ورنہ طاعت کے کام بھی منہیات کے ارتکاب سے ضائع ہو جائیں گے جیسا کے حدیث سے ظاہر ہے۔ (۴) دوسری عورت جسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنتی قرار دیا وہ اگرچہ اول الذکر عورت سے مأمورات پر عمل کرنے میں کم درجہ تھی کہ صرف فرائض کا اہتمام کرتی تھی لیکن منہیات کا ارتکاب نہیں کرتی تھی۔ معلوم ہوا حصول جنت کے لیے ضروری ہے کہ منہیات سے اجتناب کیا جائے۔ اللہ کے بندوں بالخصوص پڑوسیوں کو ایذا نہ دی جائے ورنہ نیکیاں برباد ہو جائیں گی۔ ایک حدیث کی رو سے کسی کو ایذا دینے سے باز رہنا بھی نیکی ہے۔