الادب المفرد - حدیث 1184

كِتَابُ بَابُ مَنْ بَرَكَ عَلَى رُكْبَتَيْهِ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ صَالِحٍ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يَحْيَى الْكَلْبِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى بِهِمُ الظُّهْرَ، فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَذَكَرَ السَّاعَةَ، وَذَكَرَ أَنَّ فِيهَا أُمُورًا عِظَامًا، ثُمَّ قَالَ: ((مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَسْأَلَ عَنْ شَيْءٍ فَلْيَسْأَلْ عَنْهُ، فَوَاللَّهِ لَا تَسْأَلُونِي عَنْ شَيْءٍ إِلَّا أَخْبَرْتُكُمْ مَا دُمْتُ فِي مَقَامِي هَذَا)) ، قَالَ أَنَسٌ: فَأَكْثَرَ النَّاسُ الْبُكَاءَ حِينَ سَمِعُوا ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَكْثَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَقُولَ: ((سَلُوا)) ، فَبَرَكَ عُمَرُ عَلَى رُكْبَتَيْهِ وَقَالَ: رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا، فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَالَ ذَلِكَ عُمَرُ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((أَوْلَى، أَمَا وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَقَدْ عُرِضَتْ عَلَيَّ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ فِي عُرْضِ هَذَا الْحَائِطِ، وَأَنَا أُصَلِّي، فَلَمْ أَرَ كَالْيَوْمِ فِي الْخَيْرِ وَالشَّرِّ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 1184

کتاب گھٹنوں کے بل بیٹھنا سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ظہر کی نماز پڑھائی۔ سلام پھیر کر منبر پر تشریف فرما ہوئے اور قیامت کا ذکر کیا۔ آپ نے بیان فرمایا کہ اس میں بڑے بڑے حادثات رونما ہوں گے، پھر فرمایا:’’جو مجھ سے کسی بھی چیز کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہے وہ پوچھ لے۔ اللہ کی قسم! جب تک میں اس جگہ موجود ہوں تم مجھ سے جس چیز کے بارے میں بھی پوچھو گے میں تمہیں بتاؤں گا۔‘‘ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات سن کر بہت روئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برابر فرماتے رہے:’’پوچھو جو پوچھنا چاہتے ہو۔‘‘ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر عرض کیا:ہم اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے پر راضی ہیں۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بات کہی تو آپ خاموش ہوگئے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’یہ حالات قریب ہیں۔ خبردار مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے مجھ پر جنت اور دوزخ اس دیوار کی جانب پیش کی گئی اور میں نماز پڑھ رہا تھا۔ میں نے جس قدر خیر و شر آج دیکھا، کبھی نہیں دیکھا۔
تشریح : (۱)امام، محدث یا استاد کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھنا جائز ہے۔ نیز یہ ادب و احترام غیر شرعی نہیں ہے۔ (۲) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے غیر مناسب سوالات ہوئے تو آپ اس وجہ سے ناراض ہوئے اور آپ نے فرمایا:آج جو پوچھنا ہے پوچھ لو۔ اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے معذرت کی۔ (۳) جہنم اور جنت دونوں اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں اور پیدا ہوچکی ہیں۔ جہنم نہایت ہولناک اور جنت نعمتوں کا گھر ہے۔ (۴) بعض حضرات اس سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عالم الغیب ہونے کی دلیل لیتے ہیں حالانکہ خود اس روایت میں اس کا جواب ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرما دی کہ یہ اس وقت تک ہے جب تک میں اس جگہ پر موجود ہوں۔ گویا یہ آپ کا معجزہ تھا۔
تخریج : حسن صحیح:أخرجه البخاري، کتاب الاعتصام، بالکتاب والسنة:۷۲۹۴۔ ومسلم:۲۳۵۹۔ (۱)امام، محدث یا استاد کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھنا جائز ہے۔ نیز یہ ادب و احترام غیر شرعی نہیں ہے۔ (۲) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے غیر مناسب سوالات ہوئے تو آپ اس وجہ سے ناراض ہوئے اور آپ نے فرمایا:آج جو پوچھنا ہے پوچھ لو۔ اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے معذرت کی۔ (۳) جہنم اور جنت دونوں اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں اور پیدا ہوچکی ہیں۔ جہنم نہایت ہولناک اور جنت نعمتوں کا گھر ہے۔ (۴) بعض حضرات اس سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عالم الغیب ہونے کی دلیل لیتے ہیں حالانکہ خود اس روایت میں اس کا جواب ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرما دی کہ یہ اس وقت تک ہے جب تک میں اس جگہ پر موجود ہوں۔ گویا یہ آپ کا معجزہ تھا۔