الادب المفرد - حدیث 117

كِتَابُ بَابُ الْجَارِ السُّوءِ حَدَّثَنَا صَدَقَةُ قَالَ: أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ هُوَ ابْنُ حَيَّانَ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: كَانَ مِنْ دُعَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ جَارِ السُّوءِ فِي دَارِ الْمُقَامِ، فَإِنَّ جَارَ الدُّنْيَا يَتَحَوَّلُ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 117

کتاب برے پڑوسی کا بیان حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں میں یہ دعا بھی ہوتی تھی:’’اے اللہ! میں مستقل جائے قیام میں برے ہمسائے سے تیری پناہ چاہتا ہوں کیونکہ دنیا (سفر)کا ہمسایہ تو بدلتا رہتا ہے۔‘‘
تشریح : (۱)اس حدیث میں ہمسایوں کی دو اقسام ذکر کی گئی ہیں:محلے وغیرہ میں مستقل ہمسایہ، جنگل یا سفر کا ہمسایہ، جنگل یا سفر کا ہمسایہ بھی اگر برا ہو تو انسان کا سفر کٹھن ہو جاتا ہے۔ اس سے انسان اس طرح چھٹکارا پاسکتا ہے کہ کسی اور جگہ اپنا خیمہ لگالے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ خود دوسری جگہ منتقل ہو جائے لیکن جہاں انسان مستقل رہائش پذیر ہے، لاکھوں روپے لگا کر مکان بنایا ہے نواب وہاں سے انسان کے لیے رہائش تبدیل کرنا خاصا مشکل ہوتا ہے بلکہ بسا اوقات محال ہوتا ہے اس لیے مستقل قیام گاہ کے برے ہمسائے سے پناہ طلب کی گئی ہے۔ (۲) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کوشش کرکے اچھا ہمسایہ تلاش کرنا چاہیے اور برے پڑوس سے بچنا چاہیے تاہم اگر انسان کسی آزمائش میں پھنس جائے تو اسے چاہیے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتا رہے۔ اس طرح وہ اس کے افعال سے بری الذمہ ہو جائے گا اور قیامت کے روز بھی اس کی ہمسائیگی سے محفوظ رہے گا۔ (۳) اگر ’’دارالمقام‘‘ سے آخرت مراد لی جائے تو پھر اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ قیامت کے روز برے لوگوں کا پڑوس نہ دینا کیونکہ وہ یقینا جہنم ہوگا۔ (۴) اللہ تعالیٰ سے دعا و التجا مومن کا ہتھیار ہے۔ انسان کتنا صاحب بصیرت ہو فیصلہ کرنے میں غلطی کرسکتا ہے۔ ممکن ہے وہ کسی کو اچھا سمجھ کر اس کا پڑوس اختیار کرلے لیکن اس کا اندازہ غلط ہو، کسی کو اچھا سمجھ کر اس کے ساتھ شراکت کرلے لیکن وہ دھوکے باز ہو اس لیے اللہ تعالیٰ سے التجا ضرور کرتے رہنا چاہیے۔
تخریج : حسن:الصحیحة:۱۴۴۳۔ أخرجه النسائي، کتاب الاستعاذۃ باب الاستعاذۃ من جار السوء:۵۵۰۴۔ (۱)اس حدیث میں ہمسایوں کی دو اقسام ذکر کی گئی ہیں:محلے وغیرہ میں مستقل ہمسایہ، جنگل یا سفر کا ہمسایہ، جنگل یا سفر کا ہمسایہ بھی اگر برا ہو تو انسان کا سفر کٹھن ہو جاتا ہے۔ اس سے انسان اس طرح چھٹکارا پاسکتا ہے کہ کسی اور جگہ اپنا خیمہ لگالے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ خود دوسری جگہ منتقل ہو جائے لیکن جہاں انسان مستقل رہائش پذیر ہے، لاکھوں روپے لگا کر مکان بنایا ہے نواب وہاں سے انسان کے لیے رہائش تبدیل کرنا خاصا مشکل ہوتا ہے بلکہ بسا اوقات محال ہوتا ہے اس لیے مستقل قیام گاہ کے برے ہمسائے سے پناہ طلب کی گئی ہے۔ (۲) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کوشش کرکے اچھا ہمسایہ تلاش کرنا چاہیے اور برے پڑوس سے بچنا چاہیے تاہم اگر انسان کسی آزمائش میں پھنس جائے تو اسے چاہیے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتا رہے۔ اس طرح وہ اس کے افعال سے بری الذمہ ہو جائے گا اور قیامت کے روز بھی اس کی ہمسائیگی سے محفوظ رہے گا۔ (۳) اگر ’’دارالمقام‘‘ سے آخرت مراد لی جائے تو پھر اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ قیامت کے روز برے لوگوں کا پڑوس نہ دینا کیونکہ وہ یقینا جہنم ہوگا۔ (۴) اللہ تعالیٰ سے دعا و التجا مومن کا ہتھیار ہے۔ انسان کتنا صاحب بصیرت ہو فیصلہ کرنے میں غلطی کرسکتا ہے۔ ممکن ہے وہ کسی کو اچھا سمجھ کر اس کا پڑوس اختیار کرلے لیکن اس کا اندازہ غلط ہو، کسی کو اچھا سمجھ کر اس کے ساتھ شراکت کرلے لیکن وہ دھوکے باز ہو اس لیے اللہ تعالیٰ سے التجا ضرور کرتے رہنا چاہیے۔