الادب المفرد - حدیث 1164

كِتَابُ بَابُ الْجُلُوسِ عَلَى السَّرِيرِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ، عَنْ أَبِي رِفَاعَةَ الْعَدَوِيِّ قَالَ: انْتَهَيْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَخْطُبُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، رَجُلٌ غَرِيبٌ جَاءَ يَسْأَلُ عَنْ دِينِهِ، لَا يَدْرِي مَا دِينُهُ، فَأَقْبَلَ إِلَيَّ وَتَرَكَ خُطْبَتَهُ، فَأَتَى بِكُرْسِيٍّ خِلْتُ قَوَائِمَهُ حَدِيدًا - قَالَ حُمَيْدٌ: أُرَاهُ خَشَبًا أَسْوَدَ حَسَبُهُ حَدِيدًا - فَقَعَدَ عَلَيْهِ، فَجَعَلَ يُعَلِّمُنِي مِمَّا عَلَّمَهُ اللَّهُ، ثُمَّ أَتَمَّ خُطْبَتَهُ، آخِرَهَا

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 1164

کتاب تخت پر بیٹھنے کا بیان ابو رفاعہ عدوی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ آپ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ میں نے کہا:اللہ کے رسول! ایک پردیسی شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہے جو اپنے دین کے بارے میں پوچھتا ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ اس کا دین کیا ہے؟ چنانچہ آپ خطبہ چھوڑ کر میرے پاس تشریف لائے، پھر ایک کرسی لائی گئی میرے خیال کے مطابق اس کی ٹانگیں لوہے کی تھیں۔ (حمید کہتے ہیں کہ میرے خیال میں وہ کالی لکڑی کی تھیں جسے انہوں نے لوہے کی سمجھا)چنانچہ آپ اس پر بیٹھ گئے۔ پھر آپ مجھے وہ احکام سکھانے لگے جو اللہ نے آپ کو سکھائے تھے۔ پھر بعدازاں آپ نے اپنا خطبہ مکمل فرمایا۔
تشریح : (۱)اس سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمہ کا پتا چلتا ہے کہ آپ کس قدر حسن اخلاق کے حامل اور عظیم معلم تھے۔ ہر معلم کو آپ کے نقش قدم پر چلنا چاہیے۔ (۲) طلبہ کو چاہیے کہ وہ استاد کے ادب و احترام کو ملحوظ رکھ کر احسن انداز میں سوال کریں اور استاد کو بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا مشفقانہ رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ (۳) استاد اگر طلبہ کو درس دے رہا ہو تو ایمان کے متعلق سوال کرنے والے کو، خصوصاً جب وہ نو مسلم ہو، خطبہ چھوڑ کر پہلے بتانا چاہیے۔ (۴) طالب علم اگر غیر مناسب وقت میں بھی علم سیکھنے آجائے تو برا محسوس نہیں کرنا چاہیے بلکہ اسے احکام الٰہی کی تعلیم دینی چاہیے۔ (۵) باب کے ساتھ تعلق اس طرح ہے کہ آپ کرسی پر تشریف فرما ہوئے اور کرسی بھی تخت ہی کی قسم ہے۔ اس سے تخت پر بیٹھے کا جواز ثابت ہوا خواہ دوسرے لوگ نیچے بیٹھے ہوں۔ (۶) مسجد میں کرسی وغیرہ رکھی جاسکتی ہے۔
تخریج : صحیح:أخرجه مسلم، کتاب الجمعة:۸۶۷۔ والنسائي:۵۳۷۷۔ (۱)اس سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمہ کا پتا چلتا ہے کہ آپ کس قدر حسن اخلاق کے حامل اور عظیم معلم تھے۔ ہر معلم کو آپ کے نقش قدم پر چلنا چاہیے۔ (۲) طلبہ کو چاہیے کہ وہ استاد کے ادب و احترام کو ملحوظ رکھ کر احسن انداز میں سوال کریں اور استاد کو بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا مشفقانہ رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ (۳) استاد اگر طلبہ کو درس دے رہا ہو تو ایمان کے متعلق سوال کرنے والے کو، خصوصاً جب وہ نو مسلم ہو، خطبہ چھوڑ کر پہلے بتانا چاہیے۔ (۴) طالب علم اگر غیر مناسب وقت میں بھی علم سیکھنے آجائے تو برا محسوس نہیں کرنا چاہیے بلکہ اسے احکام الٰہی کی تعلیم دینی چاہیے۔ (۵) باب کے ساتھ تعلق اس طرح ہے کہ آپ کرسی پر تشریف فرما ہوئے اور کرسی بھی تخت ہی کی قسم ہے۔ اس سے تخت پر بیٹھے کا جواز ثابت ہوا خواہ دوسرے لوگ نیچے بیٹھے ہوں۔ (۶) مسجد میں کرسی وغیرہ رکھی جاسکتی ہے۔