الادب المفرد - حدیث 1163

كِتَابُ بَابُ الْجُلُوسِ عَلَى السَّرِيرِ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مُبَارَكٌ قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ قَالَ: حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى سَرِيرٍ مَرْمُولٍ بِشَرِيطٍ، تَحْتَ رَأْسِهِ وِسَادَةٌ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِيفٌ، مَا بَيْنَ جِلْدِهِ وَبَيْنَ السَّرِيرِ ثَوْبٌ، فَدَخَلَ عَلَيْهِ عُمَرُ فَبَكَى، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((مَا يُبْكِيكَ يَا عُمَرُ؟)) قَالَ: أَمَا وَاللَّهِ مَا أَبْكِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَّا أَكُونَ أَعْلَمُ أَنَّكَ أَكْرَمُ عَلَى اللَّهِ مِنْ كِسْرَى وَقَيْصَرَ، فَهُمَا يَعِيثَانِ فِيمَا يَعِيثَانِ فِيهِ مِنَ الدُّنْيَا، وَأَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ بِالْمَكَانِ الَّذِي أَرَى، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((أَمَا تَرْضَى يَا عُمَرُ أَنْ تَكُونَ لَهُمُ الدُّنْيَا وَلَنَا الْآخِرَةُ؟)) قُلْتُ: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: ((فَإِنَّهُ كَذَلِكَ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 1163

کتاب تخت پر بیٹھنے کا بیان سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کھجور کی رسی سے بنی ہوئی ایک چارپائی یا تخت پر تشریف فرما تھے۔ آپ کے سر کے نیچے کھجور کی چھال سے بھرا ہوا ایک چمڑے کا تکیہ تھا۔ آپ کے بدن مبارک اور تخت کے درمیان کوئی کپڑا نہ تھا۔ اس دوران سیدنا عمر رضی اللہ عنہ داخل ہوئے تو روپڑے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا:’’عمر تم کیوں روتے ہو؟‘‘ انہوں نے عرض کیا:اللہ کے رسول! اگر یہ بات جانتا نہ ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک آپ کی حیثیت قیصر وکسری سے کہیں بڑھ کر ہے تو میں نہ روتا۔ وہ کس قدر دنیاوی ناز ونعمت میں رہ رہے ہیں اور آپ اللہ کے رسول اس حال میں ہیں جس کو میں دیکھ رہا ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اے عمر! کیا تم اس بات سے راضی نہیں کہ ان کے لیے دنیا ہو اور ہمارے لیے آخرت؟‘‘ میں نے کہا:کیوں نہیں اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا:’’پھر یہ اسی طرح ہے۔‘‘
تشریح : زمین سے قدرے اونچی لکڑی یا لوہے کی بنائی گئی آرام کرنے کی جگہ کو تخت یا چارپائی کہا جاتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زہد کا یہ عالم تھا کہ کھجور کے پتوں سے بنی ہوئی اس چارپائی پر کوئی کپڑا یا بستر ڈالے بغیر ہی آپ تشریف فرما تھے۔ نیز معلوم ہوا کہ چارپائی یا تخت پر بیٹھنا تکبر نہیں ہے بشرطیکہ وہ تخت سونے چاندی کا نہ ہو۔
تخریج : حسن صحیح:أخرجه ابن ماجة، کتاب الزهد:۴۱۵۳۔ ومسلم الطلاق، باب في الایلاء واعتزال النساء وتخبیرهن....:۱۴۷۹۔ ۳۰ من حدیث عمر بن یونس به مطولاً۔ زمین سے قدرے اونچی لکڑی یا لوہے کی بنائی گئی آرام کرنے کی جگہ کو تخت یا چارپائی کہا جاتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زہد کا یہ عالم تھا کہ کھجور کے پتوں سے بنی ہوئی اس چارپائی پر کوئی کپڑا یا بستر ڈالے بغیر ہی آپ تشریف فرما تھے۔ نیز معلوم ہوا کہ چارپائی یا تخت پر بیٹھنا تکبر نہیں ہے بشرطیکہ وہ تخت سونے چاندی کا نہ ہو۔