كِتَابُ بَابُ الْجُلُوسِ عَلَى السَّرِيرِ حَدَّثَنَا عُبَيْدٌ قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ دِينَارٍ أَبُو خَلْدَةَ قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، وَهُوَ مَعَ الْحَكَمِ أَمِيرٌ بِالْبَصْرَةِ عَلَى السَّرِيرِ، يَقُولُ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ الْحَرُّ أَبْرَدَ بِالصَّلَاةِ، وَإِذَا كَانَ الْبَرْدُ بَكَّرَ بِالصَّلَاةِ
کتاب
تخت پر بیٹھنے کا بیان
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے امیر بصرہ حکم بن ابو عقیل ثقفي کے ساتھ اس کے تخت پر بیٹھ کر فرمایا:نبی صلی اللہ علیہ وسلم گرمی میں (ظہر کی)نماز ٹھنڈی کرکے (قدرے تاخیر سے)پڑھتے اور جب سردی ہوتی تو جلد نماز پڑھتے۔
تشریح :
جمہور اہل علم کے نزدیک گرمی کی شدت ہو تو نماز ظہر قدرے تاخیر سے پڑھنا جائز بلکہ افضل ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ نماز کا وقت ہی گزار دیا جائے۔ باقی نمازیں اول وقت ہی میں ادا کرنا افضل ہے۔ البتہ عشاء کی نماز بھی تاخیر سے پڑھنا افضل ہے۔ (بخاري:۵۷۱)
تخریج :
حسن الإسناد والمرفوع منه صحیح:أخرجه البیهقي في الکبریٰ:۳؍ ۱۹۱۔ المشکاة:۶۲۰۔
جمہور اہل علم کے نزدیک گرمی کی شدت ہو تو نماز ظہر قدرے تاخیر سے پڑھنا جائز بلکہ افضل ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ نماز کا وقت ہی گزار دیا جائے۔ باقی نمازیں اول وقت ہی میں ادا کرنا افضل ہے۔ البتہ عشاء کی نماز بھی تاخیر سے پڑھنا افضل ہے۔ (بخاري:۵۷۱)