الادب المفرد - حدیث 116

كِتَابُ بَابُ الْجَارِ الصَّالِحِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ قَالَ: حَدَّثَنِي خَمِيلٌ، عَنْ نَافِعِ بْنِ عَبْدِ الْحَارِثِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مِنْ سَعَادَةِ الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ: الْمَسْكَنُ الْوَاسِعُ، وَالْجَارُ الصَّالِحُ، وَالْمَرْكَبُ الْهَنِيءُ "

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 116

کتاب نیک پڑوسی (نعمت ہے) حضرت نافع بن حارث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’(کسی)مسلمان کی نیک بختی میں سے (یہ بھی ہے کہ اسے( کھلا گھر نیک پڑوسی اور آرام دہ سواری میسر آجائے۔‘‘
تشریح : (۱)دنیا کی سعادت اور نیک بختی کے لیے کئی چیزیں درکار ہوتی ہیں جن میں سر فہرست تین چیزوں کا ذکر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:گھر اگر تنگ ہو تو پردے کا اہتمام نہیں ہوسکتا اور ایک مسلمان کے لیے یہ نہایت ضروری ہے اور انسان طرح طرح کی جسمانی اور نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ گھر بے شک کھلا ہو لیکن اگر ہمسایہ اچھے کردار کا مالک نہیں ہے تو بھی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے کیونکہ اس سے ہر وقت واسطہ پڑتا ہے۔ سواری آرام دہ ہو تو انسان اطاعت کے کام بطریق احسن انجام دے سکتا ہے، اسی طرح عزیز و اقارب کے ساتھ صلہ رحمی میں بھی آسانی ہوتی ہے۔ (۲) ایک روایت میں مذکورہ تین چیزوں کے علاوہ ایک اور چیز کا ذکر بھی ہے اور وہ ہے نیک بیوی۔ گویا دنیا میں اگر کسی مسلمان کے پاس یہ چار چیزیں ہوں تو وہ بلاشبہ سعادت مند ہے۔ دنیا جہان کی نعمتیں ہوں مگر ہمسایہ برا ہو۔ بیوی بری ہو، گھر تنگ ہو اور سواری صحیح نہ ہو تو انسان کا جینا دو بھر ہو جاتا ہے۔ (۳) انسان کے اچھا یا برا ہونے میں بڑی حد تک معاشرتی ماحول اثر انداز ہوتا ہے۔ انسان ذہنی طور پر پرسکون ہو اور اس کا اٹھنا بیٹھنا نیک لوگوں کے ساتھ ہو تو نیکی کی رغبت پیدا ہوتی ہے۔ اور برائی میں واقع ہونے کے امکانات بڑی حد تک کم ہو جاتے ہیں۔ (۴) کھلا گھر اور اچھی سواری بلاشبہ انسان کی سعادت ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کروڑوں، اربوں روپے مٹی میں لگا دیے جائیں اور نت نئی گاڑیوں پر مال ضائع کیا جائے۔ یہ خوش بختی نہیں بلکہ بدبختی ہے کہ انسان ان فضول مشاغل میں پڑ کر اپنی عاقبت کو برباد کرتا رہے۔ ایک روایت میں ہے کہ مسلمان کو کسی اچھے کام میں مال خرچ کرنے پر ضرور اجر ملتا ہے، سوائے اس مال کے جو وہ مٹی پر خرچ کرتا ہے۔ (سنن ابن ماجة، الزهد، حدیث:۴۱۶۳)
تخریج : صحیح لغیرہ:الصحیحة:۲۸۲۔ أخرجه أحمد:۵۳۷۲۔ والمروزي في البر والصلة:۲۴۰۔ وعبد بن حمید:۳۸۵۔ وابن أبي عاصم في الاحاد:۲۳۶۶۔ والطحاوي في شرح مشکل الاثار:۲۷۷۲۔ والحاکم في المستدرك:۴؍ ۱۶۶، ۱۶۷۔ والبیهقي في الأدب:۱۰۲۲۔ (۱)دنیا کی سعادت اور نیک بختی کے لیے کئی چیزیں درکار ہوتی ہیں جن میں سر فہرست تین چیزوں کا ذکر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:گھر اگر تنگ ہو تو پردے کا اہتمام نہیں ہوسکتا اور ایک مسلمان کے لیے یہ نہایت ضروری ہے اور انسان طرح طرح کی جسمانی اور نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ گھر بے شک کھلا ہو لیکن اگر ہمسایہ اچھے کردار کا مالک نہیں ہے تو بھی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے کیونکہ اس سے ہر وقت واسطہ پڑتا ہے۔ سواری آرام دہ ہو تو انسان اطاعت کے کام بطریق احسن انجام دے سکتا ہے، اسی طرح عزیز و اقارب کے ساتھ صلہ رحمی میں بھی آسانی ہوتی ہے۔ (۲) ایک روایت میں مذکورہ تین چیزوں کے علاوہ ایک اور چیز کا ذکر بھی ہے اور وہ ہے نیک بیوی۔ گویا دنیا میں اگر کسی مسلمان کے پاس یہ چار چیزیں ہوں تو وہ بلاشبہ سعادت مند ہے۔ دنیا جہان کی نعمتیں ہوں مگر ہمسایہ برا ہو۔ بیوی بری ہو، گھر تنگ ہو اور سواری صحیح نہ ہو تو انسان کا جینا دو بھر ہو جاتا ہے۔ (۳) انسان کے اچھا یا برا ہونے میں بڑی حد تک معاشرتی ماحول اثر انداز ہوتا ہے۔ انسان ذہنی طور پر پرسکون ہو اور اس کا اٹھنا بیٹھنا نیک لوگوں کے ساتھ ہو تو نیکی کی رغبت پیدا ہوتی ہے۔ اور برائی میں واقع ہونے کے امکانات بڑی حد تک کم ہو جاتے ہیں۔ (۴) کھلا گھر اور اچھی سواری بلاشبہ انسان کی سعادت ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کروڑوں، اربوں روپے مٹی میں لگا دیے جائیں اور نت نئی گاڑیوں پر مال ضائع کیا جائے۔ یہ خوش بختی نہیں بلکہ بدبختی ہے کہ انسان ان فضول مشاغل میں پڑ کر اپنی عاقبت کو برباد کرتا رہے۔ ایک روایت میں ہے کہ مسلمان کو کسی اچھے کام میں مال خرچ کرنے پر ضرور اجر ملتا ہے، سوائے اس مال کے جو وہ مٹی پر خرچ کرتا ہے۔ (سنن ابن ماجة، الزهد، حدیث:۴۱۶۳)