الادب المفرد - حدیث 1155

كِتَابُ بَابُ إِذَا الْتَفَتَ الْتَفَتَ جَمِيعًا حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ الْعَلَاءِ قَالَ: حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَالِمٍ، عَنِ الزُّبَيْدِيِّ قَالَ: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يَصِفُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَانَ رَبْعَةً، وَهُوَ إِلَى الطُّوَلِ أَقْرَبُ، شَدِيدُ الْبَيَاضِ، أَسْوَدُ شَعْرِ اللِّحْيَةِ، حَسَنُ الثَّغْرِ، أَهْدَبُ أَشْفَارِ الْعَيْنَيْنِ، بَعِيدُ مَا بَيْنَ الْمَنْكِبَيْنِ، مُفَاضُ الْجَبِينِ، يَطَأُ بِقَدَمِهِ جَمِيعًا، لَيْسَ لَهَا أَخْمُصُ، يُقْبِلُ جَمِيعًا، وَيُدْبِرُ جَمِيعًا، لَمْ أَرَ مِثْلَهُ قَبْلُ وَلَا بَعْدُ

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 1155

کتاب کسی کی طرف متوجہ ہوں تو پوری طرح متوجہ ہونے کا بیان سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ بیان کرتے ہوئے کہا:آپ کا قد مبارک درمیانہ تھا لیکن قدرے درازی تھی۔ رنگ نہایت سفید، داڑھی کے بال خوب کالے تھے، دانت نہایت خوبصورت اور آنکھوں کی پلکیں دراز تھیں۔ دونوں مونڈھوں کے درمیان دوری تھی۔ آپ کے رخسار برابر تھے۔ پورا قدم جما کر چلتے، تلوؤں میں گہرائی نہیں تھی۔ جب کسی طرف متوجہ ہوتے تو پوری طرح متوجہ ہوتے اور جب رخ پھیرتے تو بھی پوری طرح ادھر متوجہ ہوتے۔ میں نے آپ سے پہلے اور بعد آپ جیسا کوئی نہیں دیکھا۔
تشریح : (۱)اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی طرف جاتے یا کسی سے بات کرتے تو پوری توجہ اس طرف ہوتی۔ ایسا نہیں تھا کہ آپ بات کسی سے کر رہے ہوں اور توجہ کہیں اور ہو یا چل کسی طرف رہے اور توجہ یا منہ کسی اور طرف ہو۔ اگر کسی طرف دیکھنا ہوتا تو مکمل مڑ کر دیکھتے۔ (۲) اس کے علاوہ آپ کی دیگر صفات کا ذکر بھی ہے کہ آپ کا قد زیادہ لمبا نہیں تھا بلکہ درمیانہ لمبا تھا۔ لوگوں میں کھڑے ہوتے تو دراز معلوم ہوتے۔ (۳) پاؤں زیادہ ٹیڑھا نہ تھا کہ تلوؤں میں زیادہ خلا ہو بلکہ معمولی سی گہرائی تھی۔ پاؤں کا زیادہ حصہ زمین سے مس کرتا تھا۔ اسی طرح آپ کے شانوں کا ذکر ہے کہ وہ چوڑے تھے۔
تخریج : حسن لغیره:أخرجه معمر في جامعه:۲۰۴۹۰۔ والطبراني في مسند الشامیین:۱۷۱۷۔ والبیهقي في دلائل النبوة:۱؍ ۲۵۱۔ وابن عساکر في تاریخ دمشق:۳؍ ۲۶۹۔ (۱)اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی طرف جاتے یا کسی سے بات کرتے تو پوری توجہ اس طرف ہوتی۔ ایسا نہیں تھا کہ آپ بات کسی سے کر رہے ہوں اور توجہ کہیں اور ہو یا چل کسی طرف رہے اور توجہ یا منہ کسی اور طرف ہو۔ اگر کسی طرف دیکھنا ہوتا تو مکمل مڑ کر دیکھتے۔ (۲) اس کے علاوہ آپ کی دیگر صفات کا ذکر بھی ہے کہ آپ کا قد زیادہ لمبا نہیں تھا بلکہ درمیانہ لمبا تھا۔ لوگوں میں کھڑے ہوتے تو دراز معلوم ہوتے۔ (۳) پاؤں زیادہ ٹیڑھا نہ تھا کہ تلوؤں میں زیادہ خلا ہو بلکہ معمولی سی گہرائی تھی۔ پاؤں کا زیادہ حصہ زمین سے مس کرتا تھا۔ اسی طرح آپ کے شانوں کا ذکر ہے کہ وہ چوڑے تھے۔