الادب المفرد - حدیث 115

كِتَابُ بَابُ خَيْرِ الْجِيرَانِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ قَالَ: حَدَّثَنَا حَيْوَةُ قَالَ: أَخْبَرَنَا شُرَحْبِيلُ بْنُ شَرِيكٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيَّ يُحَدِّثُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: ((خَيْرُ الْأَصْحَابِ عِنْدَ اللَّهِ تَعَالَى خَيْرُهُمْ لِصَاحِبِهِ، وَخَيْرُ الْجِيرَانِ عِنْدَ اللَّهِ تَعَالَى خَيْرُهُمْ لِجَارِهِ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 115

کتاب پڑوسیوں میں سے بہترین کا بیان حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما رسول اللہ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک ساتھیوں میں سے بہترین ساتھی وہ ہے جو اپنے ساتھی کے لیے بہتر ہو، اور اللہ کے نزدیک پڑوسیوں میں سے بہترین پڑوسی وہ ہے جو اپنے پڑوسی کے لیے بہتر ہو۔‘‘
تشریح : (۱)کسی بھی انسان کا اچھا یا برا ہونا اس وقت تک معلوم نہیں ہوسکتا جب تک اس کے ساتھ چند دن نہ گزارے جائیں اس لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اچھا اور بہترین انسان وہ ہے جو اپنے دوستوں کا خیر خواہ اور ان سے اچھا سلوک کرنے والا ہو، کیونکہ انسان جب اکٹھا رہتا ہے تو تعلقات میں نشیب و فراز آتا رہتا ہے اس کے باوجود جو انسان حسن سلوک کرے وہ یقینا اللہ کے ہاں بھی اچھا ہے۔ پڑوسی کا تعلق عام دوست سے بھی بڑھ کر پختہ ہے اور عزیز و رشتہ داروں سے بھی زیادہ وقت پڑوسیوں کے ساتھ گزرتا ہے اس لیے اگر وہ ان کے ساتھ اتنا وقت گزار کر بھی اچھا سلوک کرتا ہے، ان کی ایذاء پر صبر کرتا ہے اور ان کی خیر خواہی کرتا ہے تو عام لوگوں کے ساتھ بالاولیٰ بہتر ہوگا۔ (۲) اللہ کے بندے زمین میں اس کے گواہ ہیں۔ اگر بندے کسی کی اچھائی یا برائی کی گواہی دیں تو اللہ کے نزدیک بھی وہ ایسا ہی ہوگا۔ لوگوں کے ساتھ بالخصوص دوستوں اور پڑوسیوں سے حسن سلوک کرنے والے کی اللہ تعالیٰ بھی قدر فرماتا ہے اور اس کو یہ بشارت دی گئی ہے کہ وہ عنداللہ نہایت معزز ہے۔ اپنوں سے روگردانی اور بدسلوکی اور غیروں کے ساتھ محبت کی پینگیں قیامت کی نشانیوں میں سے ہے۔
تخریج : صحیح:أخرجه الترمذي، کتاب البر والصلة، باب ماجاء في حق الجوار:۱۹۴۴۔ وأحمد:۶۵۶۶۔ الصحیحة:۱۰۳۔ والحاکم في المستدرك:۱؍ ۴۴۳، ۲؍ ۱۰۱ و ۴؍ ۱۶۴۔ (۱)کسی بھی انسان کا اچھا یا برا ہونا اس وقت تک معلوم نہیں ہوسکتا جب تک اس کے ساتھ چند دن نہ گزارے جائیں اس لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اچھا اور بہترین انسان وہ ہے جو اپنے دوستوں کا خیر خواہ اور ان سے اچھا سلوک کرنے والا ہو، کیونکہ انسان جب اکٹھا رہتا ہے تو تعلقات میں نشیب و فراز آتا رہتا ہے اس کے باوجود جو انسان حسن سلوک کرے وہ یقینا اللہ کے ہاں بھی اچھا ہے۔ پڑوسی کا تعلق عام دوست سے بھی بڑھ کر پختہ ہے اور عزیز و رشتہ داروں سے بھی زیادہ وقت پڑوسیوں کے ساتھ گزرتا ہے اس لیے اگر وہ ان کے ساتھ اتنا وقت گزار کر بھی اچھا سلوک کرتا ہے، ان کی ایذاء پر صبر کرتا ہے اور ان کی خیر خواہی کرتا ہے تو عام لوگوں کے ساتھ بالاولیٰ بہتر ہوگا۔ (۲) اللہ کے بندے زمین میں اس کے گواہ ہیں۔ اگر بندے کسی کی اچھائی یا برائی کی گواہی دیں تو اللہ کے نزدیک بھی وہ ایسا ہی ہوگا۔ لوگوں کے ساتھ بالخصوص دوستوں اور پڑوسیوں سے حسن سلوک کرنے والے کی اللہ تعالیٰ بھی قدر فرماتا ہے اور اس کو یہ بشارت دی گئی ہے کہ وہ عنداللہ نہایت معزز ہے۔ اپنوں سے روگردانی اور بدسلوکی اور غیروں کے ساتھ محبت کی پینگیں قیامت کی نشانیوں میں سے ہے۔