الادب المفرد - حدیث 1131

كِتَابُ بَابُ مَنْ كَتَبَ آخِرَ الْكِتَابِ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ، وَكَتَبَ فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ لِعَشْرٍ بَقِينَ مِنَ الشَّهْرِ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، أَنَّهُ أَخَذَ هَذِهِ الرِّسَالَةَ مِنْ خَارِجَةَ بْنِ زَيْدٍ، وَمِنْ كُبَرَاءِ آلِ زَيْدٍ: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، لِعَبْدِ اللَّهِ مُعَاوِيَةَ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ، مِنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ: سَلَامٌ عَلَيْكَ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ، فَإِنِّي أَحْمَدُ إِلَيْكَ اللَّهَ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ، أَمَّا بَعْدُ: فَإِنَّكَ تَسْأَلُنِي عَنْ مِيرَاثِ الْجَدِّ وَالْإِخْوَةِ، فَذَكَرَ الرِّسَالَةَ، وَنَسْأَلُ اللَّهَ الْهُدَى وَالْحِفْظَ وَالتَّثَبُّتَ فِي أَمْرِنَا كُلِّهِ، وَنَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ نَضِلَّ، أَوْ نَجْهَلَ، أَوْ نُكَلَّفَ مَا لَيْسَ لَنَا بِهِ عِلْمٌ، وَالسَّلَامُ عَلَيْكَ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ وَمَغْفِرَتُهُ. وَكَتَبَ وُهَيْبٌ: يَوْمَ الْخَمِيسِ لِثِنْتَيْ عَشْرَةَ بَقِيَتْ مِنْ رَمَضَانَ سَنَةَ اثْنَيْنِ وَأَرْبَعِينَ

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 1131

کتاب خط کے آخر میں سلام، کاتب کا نام اور تاریخ لکھنا ابوالزناد رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے یہ خط خارجہ بن زید اور آل زید کے سر کردہ لوگوں سے لیا۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اللہ کے بندے امیر المومنین معاویہ کے نام زید بن ثابت کی طرف سے۔ امیر المومنین آپ پر سلام اور اللہ کی رحمت ہو۔ میں اس اللہ کی تعریف کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ اما بعد، آپ نے دادا اور بھائیوں کی وراثت کے بارے میں پوچھا ہے (اور پھر پورا خط ذکر کیا)اور ہم اللہ سے ہدایت، حفاظت اور اپنے معاملات میں استقامت کا سوال کرتے ہیں اور اس بات سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں کہ ہم گمراہ ہوں یا جہالت کے مرتکب ہوں یا ایسی ذمہ داری ہم پر پڑے جس کا ہمیں علم نہ ہو۔ والسلام علیک امیر المومنین ورحمۃ اللہ وبرکاته ومغفرته۔ یہ خط وہیب نے جمعرات کے دن لکھا جبکہ رمضان ۴۲ ہجری کے بارہ دن باقی تھے۔
تشریح : اس سے معلوم ہوا کہ خط کے آخر میں سلام لکھنا بھی درست ہے، نیز تاریخ اور کاتب کا نام لکھنا بھی جائز بلکہ مستحن ہے تاکہ سندر ہے کہ کس نے لکھا ہے۔
تخریج : حسن:انظر الحدیث، رقم:۱۱۲۲۔ اس سے معلوم ہوا کہ خط کے آخر میں سلام لکھنا بھی درست ہے، نیز تاریخ اور کاتب کا نام لکھنا بھی جائز بلکہ مستحن ہے تاکہ سندر ہے کہ کس نے لکھا ہے۔