كِتَابُ بَابُ: كَيْفَ أَصْبَحْتَ؟ حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ الْغَسِيلِ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ قَالَ: لَمَّا أُصِيبَ أَكْحُلُ سَعْدٍ يَوْمَ الْخَنْدَقِ فَثَقُلَ، حَوَّلُوهُ عِنْدَ امْرَأَةٍ يُقَالُ لَهَا: رُفَيْدَةُ، وَكَانَتْ تُدَاوِي الْجَرْحَى، فَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا مَرَّ بِهِ يَقُولُ: ((كَيْفَ أَمْسَيْتَ؟)) ، وَإِذَا أَصْبَحَ: ((كَيْفَ أَصْبَحْتَ؟)) فَيُخْبِرُهُ
کتاب
صبح کس حال میں ہوئی؟ کہنے کا بیان
سیدنا محمود بن لبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ غزوہ خندق کے روز جب سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کی رگ کٹ گئی اور ان کی تکلیف زیادہ بڑھ گئی تو انہوں نے انہیں، ایک رفیدہ نامی عورت پر زخمیوں کا علاج کرتی تھی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب ان کے پاس سے گزرتے تو پوچھتے:تیری شام کس حال میں ہوئی!‘‘ اور صبح حال دریافت کرتے تو پوچھتے:’’صبح کس حال میں ہوئی‘‘ تو وہ اپنا حال بتا دیتے۔
تخریج : صحیح:أخرجه المصنف في التاریخ الاوسط:۱؍ ۲۲۔ وابن سعد في الطبقات:۳؍ ۴۲۷۔ انظر الصحیحة:۱۱۵۸۔