الادب المفرد - حدیث 112

كِتَابُ بَابُ لَا يَشْبَعُ دُونَ جَارِهِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي بَشِيرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُسَاوِرِ قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يُخْبِرُ ابْنَ الزُّبَيْرِ يَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ((لَيْسَ الْمُؤْمِنُ الَّذِي يَشْبَعُ وَجَارُهُ جَائِعٌ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 112

کتاب ہمسائے کو چھوڑ کر پیٹ بھر کر نہ کھانے کا بیان ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ابن زبیر رضی اللہ عنہما کو خبر دیتے ہوئے کہا:میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:’’وہ شخص مومن نہیں ہے جو خود سیر ہوکر کھاتا ہے جبکہ اس کا پڑوسی فاقوں میں زندگی بسر کر رہا ہے۔‘‘
تشریح : (۱)ایمان جس قدر مضبوط ہو اسی قدر انسان اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کرتا ہے۔ پڑوسیوں کی ضرورت کا خیال رکھنا اور ان حالات کی خبر گیری کسی مسلمان کے مومن ہونے کی دلیل ہے اور اس میں کوتاہی ایمان کے ناقص ہونے کی دلیل ہے۔ جو شخص خود پیٹ بھر کر سوتا ہے اور اسے یہ بھی احساس نہیں کہ میری بغل میں میرا ہمسایہ فاقوں سے مر رہا ہے۔ مومن اس قدر سنگدل اور خود غرض نہیں ہوسکتا۔ اس کا ایمان اسے مجبور کرے گا کہ وہ ہمسائے کو بھی اپنے کھانے اور مال میں شریک کرے۔ (۲) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے درج بالا فرمان کو اگر مسلمان اپنالیں تو شاید کوئی مسلمان بھوکا نہ رہے اور معاشرے میں پھیلی ہوئی انارکی اور بدامنی ختم ہو جائے۔ خود غرضی ایسا ناسور ہے کہ جس معاشرے میں آجائے اسے مال و دولت ہونے کے باوجود تباہ و برباد کر دیتا ہے۔ اس کے مقابلے میں ایثار و قربانی سے محبت کی فضا جنم لیتی ہے اور ہر شخص اپنے آپ کو محفوظ سمجھتا ہے اور غربت و افلاس اسے زندگی سے مایوس نہیں کرسکتے۔ لیکن افسوس کہ آج معاشرتی ڈھانچہ بالکل تبدیل ہوچکا ہے۔ مال دار، فقراء کے ساتھ رہنے میں اپنی توہین محسوس کرتے ہیں، ان کے ساتھ تعلقات اور روابط رکھنا میں اپنی ہتک سمجھتے ہیں۔ امراء اور فقراء الگ الگ سوسائٹیاں بن چکی ہے۔ اس لیے دور حاضر میں یہ مسئلہ نہایت اہمیت اختیار کرچکا ہے کہ اس کی اصلاح کی جائے۔ مال دار طبقہ دولت کے نشے میں اس قدر مست ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رہی۔ (۳) شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہمسایوں کو بھوکا چھوڑ کر خود سیر ہوکر کھانا حرام ہے (الصحیحہ، تحت حدیث:۱۴۹)لیکن ہماری صورت حال یہ ہے کہ غریب نوالے کو ترستا ہے اور امیر شہر کے کتے بھی راج کرتے ہیں۔ یہ ساری صورت حال ایمان کے فقدان کی وجہ سے ہے۔
تخریج : صحیح:الصحیحة:۱۴۹۔ أخرجه المصنف في التاریخ:۵؍ ۱۹۵۔ وابن أبي الدنیا في مکارم الاخلاق:۳۴۷۔ والطبراني في الکبیر:۱۲؍ ۱۵۴۔ وأبي یعلي:۲۶۹۹۔ والبیهقي في الأدب:۱؍ ۲۹۔ ورواء الحاکم:۲؍ ۱۵۔ من حدیث عائشة۔ (۱)ایمان جس قدر مضبوط ہو اسی قدر انسان اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کرتا ہے۔ پڑوسیوں کی ضرورت کا خیال رکھنا اور ان حالات کی خبر گیری کسی مسلمان کے مومن ہونے کی دلیل ہے اور اس میں کوتاہی ایمان کے ناقص ہونے کی دلیل ہے۔ جو شخص خود پیٹ بھر کر سوتا ہے اور اسے یہ بھی احساس نہیں کہ میری بغل میں میرا ہمسایہ فاقوں سے مر رہا ہے۔ مومن اس قدر سنگدل اور خود غرض نہیں ہوسکتا۔ اس کا ایمان اسے مجبور کرے گا کہ وہ ہمسائے کو بھی اپنے کھانے اور مال میں شریک کرے۔ (۲) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے درج بالا فرمان کو اگر مسلمان اپنالیں تو شاید کوئی مسلمان بھوکا نہ رہے اور معاشرے میں پھیلی ہوئی انارکی اور بدامنی ختم ہو جائے۔ خود غرضی ایسا ناسور ہے کہ جس معاشرے میں آجائے اسے مال و دولت ہونے کے باوجود تباہ و برباد کر دیتا ہے۔ اس کے مقابلے میں ایثار و قربانی سے محبت کی فضا جنم لیتی ہے اور ہر شخص اپنے آپ کو محفوظ سمجھتا ہے اور غربت و افلاس اسے زندگی سے مایوس نہیں کرسکتے۔ لیکن افسوس کہ آج معاشرتی ڈھانچہ بالکل تبدیل ہوچکا ہے۔ مال دار، فقراء کے ساتھ رہنے میں اپنی توہین محسوس کرتے ہیں، ان کے ساتھ تعلقات اور روابط رکھنا میں اپنی ہتک سمجھتے ہیں۔ امراء اور فقراء الگ الگ سوسائٹیاں بن چکی ہے۔ اس لیے دور حاضر میں یہ مسئلہ نہایت اہمیت اختیار کرچکا ہے کہ اس کی اصلاح کی جائے۔ مال دار طبقہ دولت کے نشے میں اس قدر مست ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رہی۔ (۳) شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہمسایوں کو بھوکا چھوڑ کر خود سیر ہوکر کھانا حرام ہے (الصحیحہ، تحت حدیث:۱۴۹)لیکن ہماری صورت حال یہ ہے کہ غریب نوالے کو ترستا ہے اور امیر شہر کے کتے بھی راج کرتے ہیں۔ یہ ساری صورت حال ایمان کے فقدان کی وجہ سے ہے۔