كِتَابُ بَابُ إِذَا سَلَّمَ عَلَى النَّصْرَانِيِّ وَلَمْ يَعْرِفْهُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الْفَرَّاءِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ: مَرَّ ابْنُ عُمَرَ بِنَصْرَانيٍّ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ، فَرَدَّ عَلَيْهِ، فَأُخْبِرَ أَنَّهُ نَصْرَانِيٌّ، فَلَمَّا عَلِمَ رَجَعَ إِلَيْهِ فَقَالَ: رُدَّ عَلَيَّ سَلَامِي
کتاب
اگر عیسائی کو لا علمی میں سلام کہہ لیا تو؟
عبدالرحمن بن محمد رحمہ اللہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ایک عیسائی کے پاس سے گزرے تو اسے سلام کہا اور اس نے جواب بھی دیا۔ بعد ازاں انہیں بتایا گیا کہ وہ تو عیسائی ہے۔ جب انہیں یہ علم ہوا تو اس کے پاس گئے اور فرمایا:میرا سلام مجھے واپس کرو۔
تشریح :
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا مقصد اس بات کا اظہار تھا کہ کافر ابتداء ً سلام کا مستحق نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ صرف مسلمان کا حق ہے کیونکہ کافر و مشرک سلامتی اور خیر وبرکت کے مستحق نہیں ہوسکتے۔
تخریج :
حسن:أخرجه عبدالرزاق:۱۹۴۵۸۔ والبیهقي في شعب الإیمان:۸۹۰۶۔ انظر الارواء:۱۲۷۴۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا مقصد اس بات کا اظہار تھا کہ کافر ابتداء ً سلام کا مستحق نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ صرف مسلمان کا حق ہے کیونکہ کافر و مشرک سلامتی اور خیر وبرکت کے مستحق نہیں ہوسکتے۔