كِتَابُ بَابُ: كَيْفَ يَكْتُبُ إِلَى أَهْلِ الْكِتَابِ؟ حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ أَبَا سُفْيَانَ بْنَ حَرْبٍ أَخْبَرَهُ: أَرْسَلَ إِلَيْهِ هِرَقْلُ مَلِكُ الرُّومِ، ثُمَّ دَعَا بِكِتَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي أُرْسِلَ بِهِ مَعَ دِحْيَةَ الْكَلْبِيِّ إِلَى عَظِيمِ بُصْرَى، فَدَفَعَهُ إِلَيَّ هِرَقْلُ فَقَرَأَهُ، فَإِذَا فِيهِ: " بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، مِنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ، سَلَّامٌ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى، أَمَّا بَعْدُ، فَإِنِّي أَدْعُوكَ بِدِعَايَةِ الْإِسْلَامِ، أَسْلِمْ تَسْلَمْ، يُؤْتِكَ اللَّهُ أَجْرَكَ مَرَّتَيْنِ، فَإِنْ تَوَلَّيْتَ فَإِنَّ عَلَيْكَ إِثْمَ الْأَرِيسِيِّينَ وَ ﴿يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ﴾ [آل عمران: 64] إِلَى قَوْلِهِ: ﴿اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ﴾ [آل عمران: 64]
کتاب
اہل کتاب کی طرف خط کس طرح لکھا جائے
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ روم کے بادشاہ ہرقل نے سیدنا ابو سفیان رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا، پھر اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ خط منگوایا جو اس کی طرف بھیجا گیا تھا۔ یہ خط آپ نے سیدنا دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کو بصری کے حاکم کو دینے کا حکم دیا تو اس نے اسے ہرقل کو پہنچایا اس نے اسے پڑھا، اس میں تھا:بسم اللہ الرحمن الرحیم....اللہ کے بندے اور رسول محمد کی طرف سے روم کے بادشاہ ہرقل کی طرف، سلام ہو اس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی۔ بلاشبہ میں تم کو اسلام کی طرف بلاتا ہوں۔ اسلام قبول کرلو، سلامت رہو گے اور اللہ تعالیٰ تمہیںا س کا دوہرا اجر عطا فرمائے گا اور اگر تم نے انکار کیا تو رعایا کا گناہ بھی تم پر ہوگا۔ اور اے اہل کتاب آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے ....تم اس کے گواہ رہو گے کہ ہم مسلمان ہیں۔
تشریح :
(۱)رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام بادشاہوں کو خطوط لکھے تو روم کے بادشاہ ہرقل کو بھی خط لکھا۔ اس نے ابو سفیان رضی اللہ عنہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پوچھا جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے اور تجارت کی غرض سے شام گئے ہوئے تھے۔
(۲) اس میں خط لکھنے کا ادب بھی ذکر ہوا ہے کہ پہلے بسم اللہ لکھی جائے اور خط لکھنے والا اپنا نام اور عہدہ لکھے اور اس کے بعد جس کی طرف خط لکھا جارہا ہے اس کا نام لکھا جائے نیز خط اگر کافر کے نام ہو تو سلام میں یہ انداز اختیار کیا جائے کہ سلام ہو اس پر جو ہدایت کی پیروی کرے۔
(۳) مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کافر سے محبت کے خطوط لکھے بلکہ مبنی بر دعوت خطوط ہونے چاہئیں۔
تخریج :
صحیح:أخرجه البخاري، کتاب بدء الوحی:۷۔ ومسلم:۱۷۷۳۔
(۱)رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام بادشاہوں کو خطوط لکھے تو روم کے بادشاہ ہرقل کو بھی خط لکھا۔ اس نے ابو سفیان رضی اللہ عنہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پوچھا جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے اور تجارت کی غرض سے شام گئے ہوئے تھے۔
(۲) اس میں خط لکھنے کا ادب بھی ذکر ہوا ہے کہ پہلے بسم اللہ لکھی جائے اور خط لکھنے والا اپنا نام اور عہدہ لکھے اور اس کے بعد جس کی طرف خط لکھا جارہا ہے اس کا نام لکھا جائے نیز خط اگر کافر کے نام ہو تو سلام میں یہ انداز اختیار کیا جائے کہ سلام ہو اس پر جو ہدایت کی پیروی کرے۔
(۳) مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کافر سے محبت کے خطوط لکھے بلکہ مبنی بر دعوت خطوط ہونے چاہئیں۔