كِتَابُ بَابُ التَّسْلِيمِ عَلَى مَجْلِسٍ فِيهِ الْمُسْلِمُ وَالْمُشْرِكُ حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكِبَ عَلَى حِمَارٍ عَلَيْهِ إِكَافٌ عَلَى قَطِيفَةٍ فَدَكِيَّةٍ، وَأَرْدَفَ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ وَرَاءَهُ، يَعُودُ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ، حَتَّى مَرَّ بِمَجْلِسٍ فِيهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولٍ - وَذَلِكَ قَبْلَ أَنْ يُسْلِمَ عَبْدُ اللَّهِ - فَإِذَا فِي الْمَجْلِسِ أَخْلَاطٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُشْرِكِينَ وَعَبْدَةِ الْأَوْثَانِ، فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ
کتاب
مسلمانوں اور مشرکوں کی ملی جلی مجلس کو سلام کہنا
سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک گدھے پر سوار ہوئے جس کے کجاوے پر فدک کی بنی ہوئی چادر تھی، آپ نے اسامہ بن زید کو پیچھے بٹھایا۔ آپ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے، یہاں تک کہ آپ ایک مجلس کے پاس سے گزرے جس میں عبداللہ بن ابی ابن سلول بھی تھا، یہ اس اللہ کے دشمن کے اظہار اسلام سے پہلے کا واقعہ ہے، مجلس میں مسلمان، مشرک اور بت پرست ملے جلے تھے۔ آپ نے انہیں سلام کہا۔
تشریح :
(۱)اس سے معلوم ہوا کہ جہاں کافر اور مسلمان ملے جلے ہوں وہاں سلام میں پہل کرنا جائز ہے۔
(۲) گدھے پر سواری کرنا کوئی عیب نہیں، نیز اگر جانور متحمل ہو تو اس پر ایک سے زائد آدمی سوار ہوسکتے ہیں۔
(۳) سفر کرکے یا سوار ہوکر کسی کی عیادت کے لیے جانا جائز ہے۔
تخریج :
صحیح:أخرجه البخاري، کتاب الأدب:۶۲۰۷۔ ومسلم:۱۷۹۸۔ والنسائي في الکبریٰ:۷۴۶۰۔
(۱)اس سے معلوم ہوا کہ جہاں کافر اور مسلمان ملے جلے ہوں وہاں سلام میں پہل کرنا جائز ہے۔
(۲) گدھے پر سواری کرنا کوئی عیب نہیں، نیز اگر جانور متحمل ہو تو اس پر ایک سے زائد آدمی سوار ہوسکتے ہیں۔
(۳) سفر کرکے یا سوار ہوکر کسی کی عیادت کے لیے جانا جائز ہے۔